• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرۃالعین فاروق، حیدرآباد

عادل بہت شرارتی اور باتونی بچہ تھا، اگرچہ اس کی عمر تین سال تھی لیکن ہر وقت گھر میں اودھم مچائے رکھتا۔ اس کی دادی آسٹریلیا میں رہتیں تھیں وہ ان سے کبھی ملا نہ تھا بس موبائل فون وڈیو کال پر بات ہوجاتی۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کی دادی موبائل فون کے اندر رہتی ہیں، اس لئے اس نے ان کا نام موبائل فون والی دادی جان رکھ دیا۔

ایک دن عادل کی دادی جان نے بتایا کہ وہ اگلے ہفتےپاکستان آرہی ہیں۔ عادل بہت خوش تھا اور اپنی دادی جان کے پاکستان آنے کا انتظار کرنے لگا ۔ اس نے اپنی امی سے پوچھا، ’’کیا دادی جان اتوار کو موبائل فون سےجمپ لگا کر ہمارے پاس آجائیں گی ‘‘عادل کی معصوم سے سوال پر انہوں نے مسکرا تے ہوئے کہا،’’نہیں بیٹا، موبائل فون سےتو صرف بات کی جاتی ہے۔ آپ جو کارٹون موبائل پر دیکھتے ہیں کیا وہ باہرنکل کر آ جاتے ہیں ‘‘۔

’’ نہیں تو‘‘عادل نے معصومیت سے کہا۔

’’ تو میرے بیٹے دادی جان کیسے نکل کر آسکتیں ہیں یہ جو فون ہے، اس سےتو ہم اپنے عزیز رشتے داروں اور ملنے والوں سے بات کرتے ہیں۔ چاہے وہ ہمارے شہر میں رہتے ہوں یا کسی دوسرے ملک میں ، ہم انہیں ویڈیو کال کر کے دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اسی طرح ٹی وی ہے، اس میں سے بھی کوئی بھی باہر نکل کر نہیں آسکتا ‘‘ عادل کو اس کی امی نے سمجھایا۔

’’ تو پھر دادی جان ہمارے گھر کیسے آئیں گی‘‘۔عادل نےپوچھا۔

’’بیٹا وہ جہاز میں بیٹھ کر آئیں گی۔ کیوں کہ آسٹریلیا ہمارے گھر سے بہت دور ہے ‘‘۔

’’ اوہ، اچھا ‘‘۔ ’’جی ہاں ‘‘۔ اس کی امی نے جواب دیا۔ وہ ان کی باتیں سن کر مطمئن سا ہوگیا۔

آخر اتوار کا دن آہی گیا اور عادل اپنی فیملی کے ساتھ دادی جان کو لینے ایئرپورٹ گیا ،جیسے ہی وہ باہر آئیں، عادل اُن کو ایک ٹک حیران و پریشان غور سے دیکھنے لگا۔

’’ عادل میرے بیٹے میرے پاس آؤ ‘‘۔ دادی جان نے اسے اپنے پاس بلایا پہلے تو وہ چپ چاپ کھڑا رہا پھر آہستہ آہستہ ان کے پاس گیا اور فوراً ہی واپس پیچھے ہٹ کر اپنی امی کے ساتھ لپٹ گیا اورآہستہ سے کہا،’’ امی،دادی جان تو موبائل فون جیسی نہیں‘‘۔

’’آپ دادی جان سے جاکر خود کہو‘‘ امی نے ایسا اس لیے کہا،تاکہ وہ دادی سے بات کر ے اور اس کی جھجھک دور ہو۔

’’ دادی جان آپ فون میںالگ نظرآتیں تھیں‘‘ عادل کی بات سن کر مسکرادیں اور پوچھا کہ’’بیٹا، اب سامنے کیسی نظر آرہی ہوں ‘‘۔

’’آپ موبائل فون میں بھی اچھی لگتیں تھیں اور ایسے بھی اچھی لگ رہی ہیں ‘‘ عادل یہ کہہ کر دادی جان سے لپٹ گیا۔

شام کو دادی جان نے عادل کو تحفے میں بہت سارے کلر پینسلز اور رنگ بھرنے والی کتابیں دیں تحفے لے کر عادل بہت خوش ہواوہ بہت جلد اپنی دادی جان سے گھل مل گیا۔

عادل کی دادی دو مہینے ان سب کے ساتھ رہ کر واپس آسٹریلیا چلیں گئیں وہ گھر والوں کے ساتھ انہیں ایئرپورٹ چھوڑنے گیا اور جب و ہ لاؤنچ میں چلی گئیں تو وہ اداسی سے منہ ہی منہ میں بولا " اللّٰہ حافظ موبائل فون والی دادی جان "