• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی پیک، گوادر پورٹ سے متعلق تاریخی حقائق اور اہم اعداد و شمار

لاہور (صابر شاہ)جیسا کہ اسلام آباد اور بیجنگ نے پیر کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی 10ویں سالگرہ منائی، آرکائیول ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ اس عظیم اقدام کے پہلے مرحلے میں اب تک پاکستان میں 6,040 میگاواٹ بجلی، تقریباً 886 کلومیٹر ٹرانسمیشن لائنز اور 510 کلومیٹر ہائی ویز شامل ہو چکی ہیں۔

 یہ اعدادوشمار پاکستان میں چین کے سفیر نونگ رونگ نے جنوری 2023 میں دی نیوز اور روزنامہ جنگ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں دیے تھے۔ اس انٹرویو کے دوران چینی سفیر کا کہنا تھا کہ سی پیک نے ان تمام سالوں کے دوران پاکستان میں مجموعی طور پر 25.4 ارب ڈالرز کی براہ راست سرمایہ کاری کی ہے

 2.12 ارب ڈالرز ٹیکس ادا کیے ہیں اور پاکستانی عوام کے لئے 192,000 ملازمتیں پیدا کی ہیں۔ سی پیک انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) پاکستان کو بجلی کی فراہمی کا تقریباً 25 فیصد اپنے عروج پر فراہم کرتے ہیں، جو بجلی کی کمی کو بہت حد تک دور کرتے ہیں اور پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ایک مضبوط بنیاد رکھتے ہیں۔ زیر تعمیر گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ چین کا اب تک کا سب سے بڑا واحد غیر ملکی امدادی منصوبہ ہے۔ چین نے گزشتہ دو سالوں میں گوادر میں گھرانوں کے لیے سولر پینلز کے کل 7000 سیٹ فراہم کیے ہیں۔

 سولر پینلز کے مزید 10,000 سیٹ تیاری کے مراحل میں ہیں اور بلوچستان کے غریب لوگوں کے لیے مختص کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں چینی سفارتخانہ بھی بلوچستان کے لوگوں کو گھریلو سولر یونٹس اور دیگر امداد فراہم کر رہا ہے۔ 

اس سے قبل 31 دسمبر 2022 کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کم و بیش یہی تعداد بتائی تھی۔ بہت سے لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں ہوں گے کہ پاکستان نے گوادر کا چھوٹا اور پسماندہ ماہی گیری گاؤں 8 ستمبر 1958کو اومان سے 5.5 ارب روپے یا اس وقت کے ایک ملین امریکی ڈالر میں خریدا تھا۔

 18دسمبر 2018کو ’’ڈان‘‘ اخبار نے لکھا تھا کہ وزیر اعظم فیروز خان نون کی حکومت نے 1958 میں اس وقت کے سلطان عمان (سید بن تیمور) کے ساتھ 5.5 بلین روپے میں گوادر کی خریداری پر بات چیت کی تھی۔ اس کے بعد حکومت پاکستان نے پاکستان نیوی کو اپنی نئی ملکیت پر ایک جہاز بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

 پاکستانی حکومت نے یکم جولائی 1977 کو گوادر کو صوبہ بلوچستان میں ضم کر دیا تھا۔ اسے نومبر 2015 میں 43 سالہ لیز پر چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ کے حوالے کیا گیا تھا۔ 

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے افتتاح کے وقت گوادر پورٹ دنیا کے 196 ممالک میں موجود 4,764 کارگو ہینڈلنگ سہولیات میں نمایاں ہے۔ یعنی 637 ایکڑ پر محیط گوادر پورٹ کا باقاعدہ افتتاح 20 مارچ 2007 کو اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا۔

 مارچ 2007 تک چین نے گوادر پورٹ کے 248 ملین ڈالر کے ابتدائی ترقیاتی اخراجات کا 80 فیصد فراہم کیا تھا۔ 

جنرل مشرف نے گوادر ضلع کے دیہی علاقوں کے لیے 50 ملین روپے کا اعلان کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وفاقی حکومت نئے پورٹ سٹی میں سیوریج، تعلیم اور صحت کی سہولیات کے لیے 10 ملین روپے فراہم کرے گی۔

 سی پیک کا آغاز 20 اپریل 2015 کو کیا گیا تھا جب دورے پر آئے ہوئے چینی صدر شی جن پنگ اور اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے 46 ارب امریکی ڈالر مالیت کے 51 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے۔ 

2015 میں، یہ اعلان کیا گیا تھا کہ گوادر شہر اور بندرگاہ کو سی پیک کے تحت 1.62 ارب امریکی ڈالر کی لاگت سے مزید ترقی دی جائے گی جس کا مقصد شمالی پاکستان اور مغربی چین کو کرہ ارض کی سب سے گہری بندرگاہ سے جوڑنا ہے۔ 

اس بندرگاہ کو تیرتی مائع قدرتی گیس کی سہولت کی جگہ بھی سمجھا جاتا ہے جو کہ 2.5 ارب ڈالرز کی بڑی گوادر-نواب شاہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا حصہ تھا۔ 

اس تناظر میں گوادر اسپیشل اکنامک زون کی تعمیر جون 2016 میں شروع ہوئی تھی، جسے بندرگاہ سے ملحقہ 2,292 ایکڑ جگہ پر تعمیر کرنے کا منصوبہ تھا۔ 

اپریل 2017میں ’’بزنس ریکارڈر‘‘ اخبار نے اس وقت کے گورنر سندھ محمد زبیر کے حوالے سے کہا تھا کہ کراچی سرکلر ریلوے اور دیگر سمیت نئے منصوبوں کی شمولیت کے بعد سی پیک کے تحت سرمایہ کاری اب 62 ارب ڈالر تک بڑھ گئی ہے۔

اہم خبریں سے مزید