• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نمازِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے فجر کی سنتوں کی قضا کا حکم (گزشتہ سے پیوستہ)

تفہیم المسائل

علامہ زیلعی وابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اگر صرف فجر کی سنتیں فوت ہوجائیں تو طلوعِ شمس سے پہلے بالاجماع ان کی قضا نہیں کی جائے گی، اس لیے فجر کی نماز کے بعد نفل پڑھنا مکرو ہ ہے،(تبیین الحقائق، ج:1،ص:183، ردالمحتار،ج:2، ص:57)‘‘ ۔

بعض حضرات کا موقف یہ ہے کہ جو شخص نمازِ فجر سے پہلے سنتیں نہ پڑھ سکے تو وہ نمازِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے بھی بلاکراہت پڑھ سکتا ہے، وہ اپنے موقف پراس حدیث سے استدلال کرتے ہیں: ترجمہ:’’رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو نماز فجر ختم ہوجانے کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا، تو آپﷺ نے فرمایا:فجر دو ہی رکعت ہے ، اس شخص نے جواب دیا: میں نے پہلے کی دونوں رکعتیں نہیں پڑھی تھیں، وہ اب پڑھی ہیں، اس پر رسول اللہﷺ خاموش رہے،(سنن ابوداود:1267،جامع ترمذی:422،سنن ابن ماجہ:1154)‘‘۔

اس حدیث کا اولاً جواب یہ ہے کہ یہ حدیث دو وجہوں سے سخت ضعیف ہے: پہلی وجہ یہ ہے کہ اس کی سند میں سعدبن سعید نامی راوی اس حدیث کو روایت کرنے میں متفرد ہیں اورمحدثین نے اُنہیں ضعیف قرار دیا ہے، امام احمدؒ فرماتے ہیں:یہ ضعیف ہیں، امام نسائی ؒفرماتے ہیں:یہ قوی نہیں ہیں،امام ابو حاتمؒ فرماتے ہیں: یہ حدیثوں کوٹھیک طرح یاد نہیں رکھتے تھے اور جو سُنتے، اُسے آگے روایت کردیاکرتے تھے،(تہذیب التہذیب، ج: 3،ص:410)‘‘۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کی سند منقطع ہے،کیونکہ اس حدیث کو محمد بن ابراہیم تیمی نے قیس بن سعد سے روایت کیا ہے اور اُن کا قیس بن سعد سے سماع ثابت نہیں ہے ،امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ترجمہ:’’اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، کیونکہ محمد بن ابراہیم نے قیس سے احادیث کا سماع نہیں کیا ہے‘‘۔

ثانیا ً: اس حدیث میں بیان ہے کہ جب اُس شخص نے کہا:یا رسول اللہ ﷺ!میں نے فجر کی دو سنتیں نہیں پڑھی تھیں، اس لیے اُنہیں ادا کررہا ہوں ،حدیثِ پاک میں ہے:’’فَسَکَتَ رَسُوْلُ اللہِ‘‘، پس رسول اللہ ﷺخاموش رہے۔

ہمارے فقہائے کرام فرماتے ہیں : اگرچہ مسئلہ یہی ہے کہ نمازِ فجر کے بعدطلوعِ آفتاب تک سنتوں کی ادائی ممنوع ہے اور اس بابت اگر کوئی سوال کرے گا تو اُسے مسئلے کا یہی حکم بتایا جائے گا ،لیکن اگر کوئی پڑھتا ہے تو اُسے منع نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ نبی کریمﷺ خاموش رہے اور آپ نے منع نہیں فرمایا، چنانچہ ہمارے فقہائے کرام نے ذکر کیا ہے کہ عوام الناس کو ممنوع ومکروہ اوقات میں نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا جائے گا ،کیونکہ یہ فعلِ حرام نہیں ہے، بلکہ مکروہ ہے، علامہ حصکفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’طلوعِ آفتاب کے وقت کوئی نماز جائز نہیں مگر عوام کو نماز پڑھنے سے فقہا ء نے نہیں روکا ،ورنہ وہ بالکل ترک کردیں گے، ہر وہ عمل جس کی ادا بعض کے نزدیک جائز ہو ،اس کا بجا لانا ترک سے بہتر ہے جیسا کہ قنیہ وغیرہ میں ہے،(درمختار ، ج:1،ص:371)‘‘۔

نمازِ عید کے بعد عیدگاہ میں نوافل پڑھنا مکروہ ہے، لیکن امیر المومنین مولیٰ علی کرم ﷲ وجہہ الکریم نے ایک شخص کو نماز عید کے بعد نفل پڑھتے دیکھا، کسی نے عرض کی: امیر المومنین !آپ نہیں منع کرتے ، فرمایا: ترجمہ: میں اس وعید میں داخل ہونے سے ڈرتا ہوں، ﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو منع کرتا ہے بندے کو جب وہ نماز پڑھے۔(بدائع الصنائع، ج:1،ص:297)‘‘

علامہ ابن نجیم حنفی ’’التجنیس ‘‘کے حوالے سے لکھتے ہیں: ترجمہ:امام شمس الائمہ حلوانی سے سوال ہوا : عوام سستی کرتے ہوئے طلوع شمس کے وقت نماز فجر ادا کرتے ہیں، کیا ہم انھیں اس سے منع کریں، فرمایا:ایسا نہ کرو، کیونکہ اگر تم اُنہیں اس سے روکو گے تو وہ نماز بالکل ترک کردیں گے، نمازکا ادا کرلینا چھوڑ دینے سے بہتر ہے اور محدثین اِسے جائز بھی سمجھتے ہیں،(البحر الرائق ،ج:2،ص:173)‘ ‘۔

اس تفصیلی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب مسئلہ پوچھا جائے: نمازِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے قضائے فرض یا اور کوئی نماز پڑھنی جائز ہے تو اسے مسئلہ یہی بتایا جائے گا کہ اس وقت سنتیں اور نوافل پڑھنا مکروہ ہے اور اس پر متعدد احادیثِ مبارکہ دلالت کرتی ہیں جو سطورِ بالا میں بیان ہوئیں۔ سنن ابوداؤد:1267،جامع ترمذی:422،سنن ابن ماجہ:1154کی حدیث پر فنی بحث گزر چکی ہے، اس کے باوجود اگر کوئی مکروہ وقت میں سنت یا نوافل پڑھے گا تو اسے منع نہیں کیا جائے گا، مذکورہ حدیث مبارک سے بھی یہی مستفاد ہوتا ہے، اس مسئلے میں ائمۂ اربعہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، دیگر متعدد ائمۂ حدیث اور اہلِ حدیث کے ائمہ شیخ محمد بن علی شوکانی اور شیخ ناصر الدین البانی کا بھی یہی موقف ہے، تمام حوالہ جات سطورِ بالا میں گزر چکے ہیں۔