اسلام آباد، لاہور، اٹک (نمائندہ جنگ، ایجنسیاں) ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں ملزم چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو 3سال قید ، ایک لاکھ روپے جرمانہ اور 5سال کیلئے نااہل قرار دیدیا ہے، جرمانہ کی عدم ادائیگی پر مزید چھ ماہ قید کاٹنا ہو گی، عدالت نے فیصلے میں کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سال 2018 سے 2020 کے دوران اثاثوں کی جھوٹی تفصیلات جمع کرائیں، توشہ خانہ سے لئے تحائف کا غلط فائدہ اٹھایا، جھوٹا ریکارڈ جمع کرایا، انکی بے ایمانی پر کوئی شک نہیں، خود مانا تحفے بیچ دیئے،فارم بی کے مطابق بیچے یا منتقل کیے گئےاثاثوں کی تفصیل دینا لازم، فراہم کردہ معلومات غلط ثابت ہوئیں ، ملزم کرپٹ پریکٹسز کا مرتکب پایا گیا ہے، پی ٹی آئی چیئرمین آرٹیکل 63 ون ایچ کے تحت 5 سال کیلئے نااہل ہوئے،عدالتی احکامات کے بعد پولیس کی ٹیم وارنٹ لیکر زمان پارک پہنچی، جہاں افسران نے وارنٹ گرفتاری دکھائے، کچھ دیر بات چیت کے بعد عمران خان نے گرفتاری دیدی، جسکے بعد پولیس انہیں بذریعہ موٹر وے اسلام آباد لیکر آئی، پنجاب اور اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل منتقل کیا گیا جہاں انہیں ہائی سیکورٹی زون میں رکھا جائیگا، لاک اپ کی سیکوٹی پولیس کمانڈوز کرینگے۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کی جس میں عدالت نے آج چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا تھا۔آج صبح ساڑھے 8 بجے سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن کے وکلا امجد پرویز اور سعد حسن عدالت میں پیش ہوئے تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی وکیل عدالت میں پیش نہ ہوا۔سماعت کے آغاز سے قبل پولیس کی بھاری نفری احاطہ عدالت کے باہر تعینات تھی اور صرف وکلا کو کمرہ عدالت کے اندر جانے کی اجازت تھی، تاہم سماعت کے دوران عمران خان یا ان کے وکیل عدالت میں پیش نہ ہوئے۔پی ٹی آئی کی جانب سے کسی کے پیش نہ ہونے پر جج نے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز سے استفسار کیا کہ کیا کچھ کہیں گے؟ کوئی شعر و شاعری ہی سنا دیں، امجد پرویز نے جواب میں شعر کہا ’وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی، میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا، اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا‘۔بعدازاں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا کو ساڑھے 10 بجے تک کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی تھی۔بعد ازاں کیس کی سماعت جب دوبارہ شروع ہوئی تو بیرسٹر گوہر کے معاون وکیل خالد چوہدری عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ خواجہ حارث نیب کورٹ میں مصروف ہیں، خواجہ حارث بس آ ہی رہے ہیں۔جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ کیس بتائیں، کس کیس میں خواجہ حارث مصروف ہیں؟ خالد چوہدری نے جواب دیا کہ احتساب عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہے۔جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ ان کی وہاں کیا مصروفیات ہیں، کیا وہ ضمانت کی درخواستوں پر دلائل دے رہے ہیں؟ خالد چوہدری نے جواب دیا کہ خواجہ حارث دلائل نہیں دے رہے، وہاں موجود ہیں، جیسے ہی وہاں سے فارغ ہوں گے، یہاں پیش ہو جائیں گے۔جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ اگر خواجہ حارث پیش نہیں ہوتے تو کیا صورتحال ہوگی؟ گزشتہ روز کے آرڈر میں پیشی کی واضح ہدایات تھیں، ایسی صورتحال میں تو ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاتے ہیں، عدالت کیس کی سماعت 12 بجے تک ملتوی کرتی ہے، خواجہ حارث 12 بجے ہیش ہوں ورنہ فیصلہ محفوظ کرلیا جائے گا۔تیسرے وقفےکے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے، جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ کوئی پیش ہوا یا نہیں؟عدالت نے کہا کہ چوتھی سماعت میں بھی خواجہ حارث عدالت پیش نہیں ہوئے، میں فیصلہ محفوظ کرتا ہوں، ساڑھے 12 بجے سناؤں گا۔بعدازاں سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث عدالت پہنچ گئے۔جج ہمایوں دلاور نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس ناقابل سماعت ہونے سے متعلق درخواست مسترد کردی۔انہوں نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوتا ہے، ملزم نے الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات جمع کرائیں، ملزم کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب پائے گئے ہیں، ملزم نے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات دیں۔جج ہمایوں دلاور نے فیصلہ سنایا کہ ملزم کو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 174 کے تحت 3 سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے، ملزم آج عدالت میں پیش نہیں ہیں، فیصلے کی کاپی آئی جی اسلام آباد کو عملدرآمد کے لیے بھجوائی جائے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر عمران خان نے ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا نہ کیا تو انہیں مزید 6 ماہ قید ہوگی۔ بعد ازاں سیشن کورٹ اسلام آباد نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔سیشن جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس میں 4 صفات کا فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ملزم کی جانب سے کیس قابل سماعت ہونے کی درخواست پر کسی نے بحث نہیں کی، 5 مئی اور 8 جولائی کو قابل سماعت ہونے کے دلائل پر درخواست مسترد کی جاتی ہے۔