اسلام آباد (اے ایف پی) سابق وزیراعظم عمران خان کو سزائے قید کے بعد پاکستا ن میں کسی بڑے پیمانے پر احتجاج کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔
ملک میں ان کے حق میں بکھرئی ہوئی ریلیاں تو ہوئی ہیں لیکن بڑے پیمانے پر کسی بغاوت یا شورش کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
اتوار کو انہوں نے احتجاج کی اپیل بھی کی لیکن لوگ بڑے پیمانے پر سڑکوں پر نہیں آئے۔
عمران خان کی جانب سے اتوار کو احتجاج کی کال بھی دی گئی لیکن اس کا کوئی خاطرخواہ اثر نہیں ہوا۔ انہیں جیل ہونے کے بعد آئندہ عام انتخابات سے قبل تشدد کی نئی لہر کے خدشات پیدا ہوئے لیکن اب انہیں انتخاب لڑنے سے نااہل قرار دے دیا گیا ہے، ان کے بغیر انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے بھی شکوک و شہبات پیدا ہوگئے ہیں، ان کے وکلاء نے شکایت کی کہ انہیں اپنے موکل سے مشاورت کی اجازت نہیں دی گئی تاکہ وہ سزا کے خلاف اعلیٰ عدالیہ میں اپیل دائر کرسکیں، وکلاء نے عمران خان کو 100 سال قدیم اٹک جیل میں قیدت کئے جانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا جو اسلام آباد سے چند کلومیٹرز دور اٹک شہر کے نواح میں واقع ہے۔
ان کی قانونی ٹیم کے ایک رکن گوہر خان نے کہا کہ سابق وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان جیل میں بہتر کلاس کےمستحق ہیں۔
تحریک انصاف کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ پولیس نے احتجاج کو دبائے کےلیے 50حامیوں کو گرفتار کرلیا آئندہ چند دنوں میں قائم ہونے والی نگراں حکومت آئین کے تحت 90روز میں عام انتخابات کرانے کی پابند ہے لیکن نئی مردم و خانہ شماری کے تحت انتخابات کرانے کے فیصلے کے بعد انتخابات کے التوا کی قیاس آرائیاں زور پکڑ گئی ہیں۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ تازہ دم مردم و خانہ شماری کے تحت نئی حلقہ بندیاں کرنا ہوں گی جس سے انتخابات میں دو سے ڈھائی ماہ کی تاخیر ہوسکتی ہے ۔
عمران خان کا پیشگی ریکارڈ وڈیو سوشل میڈیا پر جاری ہوا ہے جس میں انہوں نے اپنے حامیوں سے احتجاج جاری رکھنے کی اپیل کی ہے اور کہا کہ اب خاموش ہوکے گھروں میں نہیں بیٹھنا ہے۔ یہ عوام کی آزادی، حقوق اور انصاف کیلئے جنگ ہے۔