• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج صدر پاکستان کو اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے خط لکھوں گا، اقتدار نگرانوں کے سپرد کردینگے، شہباز شریف

اسلام آباد(نمائندہ جنگ، ایجنسیاں) اتحادی حکومت کا آج آخری دن ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت کی مدت مکمل ہونے کے بعد آج صدر مملکت کو قومی اسمبلی کی تحلیل کیلئے خط (سمری) ارسال کردونگا، اقتدار نگرانوں کے سپرد کر دینگے، نگراں حکومت کیلئے دو تین دن میں مشاورت مکمل کر لی جائیگی، نوازشریف سے بھی بات ہو رہی ہے، کوشش ہے ایسا فیصلہ کریں جو سب کیلئے قابل قبول ہو، شمسی توانائی گھروں، صنعتوں اور دکانوں سمیت ہر شعبہ کیلئے ضروری ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں منعقدہ سولر ٹیوب ویلز سے متعلق تقریب میں خطاب اور ایک انٹرویو میں کیا۔اس سوال پر کہ کیا آپ چاہیں گے کہ نگراں وزیراعظم ن لیگ سے ہو۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ میرے چاہنے نہ چاہنے کی بات نہیں ہے یہ ایک اجتماعی فیصلہ ہوگا اتحادی پارٹی کے لیڈروں کا اور اس پر نوازشریف سے بھی مشاورت ہوگی، یہ اجتماعی مشاورت ہوگی اسکے نتیجے میں جو نام آئینگے میں مینڈیٹ لے کر لیڈر آف دی اپوزیشن سے بات کروں گا۔ شہباز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ نگران وزیراعظم کیلئے ابھی تک کوئی نام شارٹ لسٹ نہیں ہوا، نوازشریف سے اس معاملے پر مشاورت ہو رہی ہے، ہماری کوشش ہے کہ نگران وزیراعظم ایسا ہو جو قابل قبول ہو۔ اس سوال پر کہ حفیظ شیخ کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ابھی کوئی نام فائنل نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے آئینی فرائض کی تکمیل کی ہے، نئی مردم شماری کو ٹیک اپ اور ڈسکس کرنے کا فیصلہ سی سی آئی کے پاس ہے، 2023 کی مردم شماری کو سی سی آئی میں لے کر جانا آئینی ضرورت تھی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ مردم شماری کو سی سی آئی میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا، اب الیکشن کرانے کی ذمے داری چیف الیکشن کمشنر کی ہے، چیف الیکشن کمشنر اور ان کا ادارہ ہے ، ان کی ذمے داری ہے الیکشن کرانا،سب چاہیں گے کہ جتنی جلدی ہوسکے الیکشن ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن میں تاخیر کا سبب ایسا بنتا ہے جو ناگزیر ہے تو ہم دیکھیں گے، ہم ابھی کیوں فرض کرلیں کہ الیکشن میں تاخیر ہوگی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے مزید کہا کہ میری حکومت نے کوئی سروے نہیں کرایا، الیکشن میں عوام جو فیصلہ کریں گے اس کو قبول کریں گے، تمام پارٹیاں اپنا منشور عوام کے پاس لے کر جائیں گے ،جس کو عوام منتخب کریں گے اس کو حق ہوگا کہ ملک کے عوام کی خدمت کرے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بطور پارٹی صدر میں نے اعلان کیا ہے کہ وزیراعظم کے امیدوار نوازشریف ہوں گے، ہم نے جیلیں کاٹیں، جلاوطنی کاٹی ، کوئی ایسی بات نہیں ہو جو اصول و قاعدے کے خلاف ہو، یہ تاثر کہ اسٹبلشمنٹ مجھے پسند کرتی ہے یا میں ان کا آدمی ہوں، یہ بات 30 سال سے چل رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بد قسمتی سے سول اور ملٹری تعلقات میں آئینی و قانون، معروضی حالات اس میں جو توازن ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی معاشی بحالی کا پروگرام بن چکا ہے اس میں تمام صوبے شامل، آرمی چیف شامل ہیں۔اس سوال پر کہ کیا تحریک انصاف سے بھی مذاکرات ہونے چاہیں پیپلز پارٹی کا کہنا ہے نگراں حکومت پر بھی ان سے مشاورت ہونی چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی اے کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے بھی اس ملک کے وسیع تر مفاد میں مذاکرات کیلئے کمیٹی بنائی تاکہ الیکشن کی تاریخ الیکشن کا سب مل طے کر لیں، جب انہوں نے اپنے چیئرمین سے پوچھا تو انہوں نے کہا مجھے اتفاق نہیں ہے۔ اگر وہ مذاکرات کامیاب ہوجاتے تو متفقہ طور پر تاریخ کا اعلان ہوجاتا اور شاید اکتوبر نومبر میں الیکشن ہوجاتے لیکن آخری وقت میں چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی کمیٹی اپنی پارٹی کو ڈچ کر دیا کہ میں چوروں اور ڈاکوؤں سے بات نہیں کرتا۔ قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کی مدت ختم ہونے سے پہلے شمسی توانائی کا منصوبہ شروع کیا، اُن ممالک میں بھی سول سسٹم چل رہے ہیں جہاں سورج ہر وقت نہیں ہوتا جبکہ ہمارے ملک میں سال کے 12 مہینے سورج رہتا ہے، حکومت سستی بجلی فراہم کرنے کیلئے شمسی توانائی پر تمام شعبوں کو منتقل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 15 ماہ میں ہم نے سستی بجلی کیلئے شمسی توانائی کے منصوبے پر کام شروع کیا مگر آئی ایم ایف پروگرام اور اُسکی مشکلات کیوجہ سے پروگرام پر دھیان نہیں دے سکے۔

اہم خبریں سے مزید