اسلام آباد(نیوزایجنسیاں) سپریم کورٹ نے نظرثانی کی درخواست کے دائرہ کار کو بڑھانے سے متعلق ’ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ 2023‘ کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم کردیا اور کہا کہ یہ آئین سے متصادم ہے، پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی،پارلیمنٹ نے اختیارات سے تجاوز کیا،تفصیلی فیصلے میں 33 صفحات پر مشتمل جسٹس منیب اختر کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے، جسٹس منیب کا کہنا ہے کہ سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز کو غیرموثر نہیں کیا جا سکتا، رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کی سماعت کرتے ہوئے 19 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ ریویو اینڈججمنٹ ایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں منظور کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، فیصلے میں کہا گیا کہ ریویو آف ججمنٹ ایکٹ آئین پاکستان سے متصادم ہے، قانونی اسکیم کے مطابق قانون سازی کو آئین کے مطابق ہونا چاہیے، سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار سے تجاوز ہے، طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔87صفحات پر مشتمل سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں 33صفحات پر مشتمل جسٹس منیب اختر کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔جسٹس منیب اختر نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ پارلیمان کا قانون سازی اور سپریم کورٹ کے پاس رولز بنانے کے اختیارات برابر ہیں، سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز کو غیرموثر نہیں کیا جا سکتا، رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔ریویو ایکٹ میں آرٹیکل 184تھری کیمقدمات کیفیصلے کیخلاف متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ ایکٹ کے خلاف 2مئی کو تین درخواست گزاروں نے عدالت سے رجوع کیا تھا، فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے عدالت نے ریمارکس دئیے تھے کہ کیس کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 4 اپریل کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کے حوالے سے فیصلہ کریگا جس میں 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دبگے تھے کہ ہم آئینی دائرہ کار کی بات کر رہے ہیں، نظر ثانی میں کوئی غلطی ہو تو پہلے کا فیصلہ دیکھنا ہوگا، اپیل میں آپ کو پہلے فیصلے میں کوئی غلطی دکھانا ہوتی ہے۔