اسلام آباد(نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ بنایا جائے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ریٹائرمنٹ سے قبل فیصلہ نہ دیا تو شرمندگی ہوگی، درخواست گزار کے وکیل نئی ترامیم اور تحریری جوابات جمع کرائیں،28 اگست سے روزانہ سماعت کرکے ہر صورت فیصلہ دینا ہوگا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ کرے یا فل کورٹ بنائے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ضروری نہیں کہ نیب ترامیم کا میرٹس پر ہی فیصلہ کریں، ممکن ہے کیس کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ آئے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیس کی 47سماعتیں ہو چکی ہیں، پہلی سماعت پر بھی بنیادی حقوق سے متعلق سوال کیا تھا، نہیں بتایا گیا کہ نیب ترامیم میں کونسا بنیادی حق متاثر ہوا۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعہ کے روزپاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی آئینی درخواست کی 47ویں سماعت کی۔دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے کا سوال اٹھاتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کیلئے فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کی تجویز دی ہے اور کہاہے کہ عدالت پہلے سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023سے متعلق مقدمہ کا فیصلہ جاری کرے؟ یا زیر غور کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنچ تشکیل دے، فاضل جج نے نو مئی کی دھشت گردی میںملوث سویلین ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کرنے سے متعلق کیس میں دیئے گئے اپنے الگ نوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ اسپیشل کورٹس سے متعلق مقدمے میں بھی فل کورٹ بنانے کی تجویزدی تھی ،میرا اعتراض ہے کہ اس طرح کے معاملات کی سماعت فل کورٹ ہی سن سکتی ہے ، آج بھی چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوں کہ نیب آرڈیننس ترمیمی ایکٹ مجریہ 2022کے خلاف دائر اس درخواست کی سماعت کیلئے بھی سپریم کورٹ کا فل کورٹ بنچ تشکیل دیا جائے ،انہوںنے کہا کہ ابھی تک سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر)ایکٹ 2023 ا فیصلہ نہیں ہواہے ،، اگر سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ کا فیصلہ ہو جاتا تو معاملہ مختلف ہوتا،فاضل چیف جسٹس نے ریما رکس دیے کہ یہ کیس 2022 سے زیر التواہے، ضروری نہیں ہے کہ کیس کے میرٹس پر فیصلہ دیں، نیب ترامیم کیخلاف دائر کی گئی درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر بھی فیصلہ دے سکتے ہیں،انہوںنے کہا کہ 2023میں نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو تو ہمارے سامنے کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا ہے ،ہم اس کیس کو نمٹانا چاہتے ہیں کیونکہ بنچ کے ایک رکن(خود چیف جسٹس) کی ریٹائرمنٹ قریب ہے، اوریہ انتہائی اہم مقدمہ ہے، مجھے ہرصورت فیصلہ دینا ہو گا، اگر فیصلہ نہ دے سکا تو میرے لئے باعث شرمندگی ہو گا۔ دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث کی جگہ ان کے معاون وکیل پیش ہوئے اور موقف پیش کرنے کے لیے عدالت سے اجازت طلب کی تو عدالت نے انکی استدعا منظور کرتے ہوئے انھیں پیش ہونے کی اجازت دیدی جبکہ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کو بھی معاونت کی ہدایت کی،جس پر مخدوم علی خان نے بھی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ عدالت نیب آرڈیننس ترمیمی ایکٹ مجریہ 2022کیخلاف دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے کی حد تک اس کیس کی سماعت کرسکتی ہے،انھوں نے کہا کہ میں اس معاملے میں جسٹس منصور علی شاہ کے نکتے سے متفق ہوں، اس نکتے پر عدالت کی معاونت تیاری کے بعد ہی کر سکوں گا،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ کوئی اتنا منفرد اور خاص کیس ہے کہ قانون کو نظر انداز کرکے اس کی سماعت کی جائے ؟جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل184/3 کے تحت یہ کیس قابل سماعت ہے تو ہی اس کی مزیدسماعت چلائی جائے گی ۔