شو بزنس کی چمکتی دمکتی دُنیا میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی فن کارہ حسین و جمیل ہے، تو اس میں اداکاری کا ہنر تھوڑا کم ہوتا ہے، اسی طرح عام شکل و صورت کی حامل کوئی فن کارہ فن کی دولت سے مالا نظر آتی ہے۔ یعنی یوں کہا جاسکتا ہے کہ کبھی فن پر حُسن غالب آجاتا ہے، تو کبھی فن کی جیت ہوتی ہے۔ معروف شاعر جون ایلیا نے بھی ایسی صورت حال پر خُوب صورت اشعار کہے تھے کہ ’’تم لاکھ جاذب و جمیل سہی، زندگی جاذب نہیں، نہ کرو بحث ہار جاؤ گی حُسن اتنی بڑی دلیل نہیں‘‘۔
اس تمہید کی روشنی میں معروف اداکارہ ایم فاروق کی بات کی جائے تو یقیناً ان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ایسی باصلاحیت اور خُوب صورت فن کارہ ہیں، جو حسین و جمیل ہونے کے باوجود بھی اپنے فنِ داکاری پر ناز کرتی ہیں۔ انہیں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں پر یقین اور بھروسا ہے، یہی وجہ ہے انہوں نے شو بزنس انڈسٹری میں پسِ پردہ رہ کر بھی بہ حیثیت فلم پروڈیوسر کمالات دکھائے اور تھیٹر، ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں لاجواب اداکاری کرکے ناظرین کے دل جیتے۔
انہوں نے شوبزنس کیریئر کا آغاز تھیٹر سے کیا۔ باصلاحیت ،خُوب صُورت فلم ساز اور فن کارہ حریم فاروق کو پہلی بار انور مقصود کے مقبول اسٹیج ڈرامے ’’آنگن ٹیڑھا‘‘ میں، گلابی ساڑی میں ملبوس، جہاں آراءکے رُوپ میں دیکھا، توخوش گوار حیرت ہوئی اور کافی عرصے بعد حُسن اور صلاحیتوں کا خوب صورت امتزاج دیکھنے کو ملا۔
شوبزنس کی رنگین دُنیا میں برق رفتاری سے کام یابیاں سمیٹنے والی حریم فاروق نے ابتدا میں تھیٹر سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، بعدازاں، ٹیلی ویژن اور فلم انڈسٹری کا رُخ کیا۔ دراصل اُن کی انور مقصود کے مقبول ڈرامے ’’پونے 14اگست ‘‘میں فاطمہ جناح اور ’’آنگن ٹیڑھا‘‘ میں جہاں آراء کے کردار میں دل چُھولینے والی پرفارمینس نے سب کی توجّہ کا محورو مرکز بنایا۔ وہ فلم سازی کے ساتھ ساتھ اداکاری کے میں بھی خُوب نام کما رہی ہیں۔
حریم کی پروڈیوس کردہ فلموں میں ’’جانان‘‘، ’’پرچی‘‘اور فلم’’ہیر مان جا‘‘شامل ہیں۔ انھوں نےفلم ’’سیاہ‘‘، ’’جانان‘‘،’’دوبارہ پھر سے‘‘ اور’’ پرچی‘‘ میں شان دار اداکاری سےبھی فلم بینوں کے دل جیتے۔ تاہم، انہوں نے چھوٹی اسکرین پر کم، مگر بہترین کام کیا۔ ان کے چند قابلِ ذکر ڈراموں میں، موسم،میرے ہم دَم ،میرے دوست، عید ہنگامہ، دیارِ دل، میرے جیون ساتھی، تیرے بغیر، صنم، باغی، مَیں خیال ہوں کسی اور کا اور 22قدم وغیرہ شامل ہیں۔
گزشتہ روز کراچی میں انھوں نے ’’جنگ،، کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’میرے لیے تھیٹر اسکول کا درجہ رکھتا ہے، میں تھیٹر کو استاد مانتی ہُوں، اسی سے اداکاری کی تربیت لی ہے۔ مجھے اب تھیٹر سے عشق ہوگیا ہے، وہ بھی ایسا عشق، جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔ فلم پروڈیوس کرنا، ایکٹنگ کرنا، یہ سب میں خود کو مطمئن کرنے کے لیے کرتی ہُوں۔ اسکرین پر اپنی اچیومنٹس دیکھ رہی ہوتی ہُوں تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ خود کو بڑے پردے پر دیکھ کر شان دار تجربہ معلوم ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ میں خواب میں دیکھ رہی ہوں۔
پردہ اسکرین پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم دو ڈھائی گھنٹے کیفیت خواب میں رہتے ہیں، جہاں تک ٹیلی ویژن ڈراموں کا سوال ہے، تو اس بارے میں اتنا کہوں گی کہ ڈراموں سے مجھے بہت عزت ملی، ڈھیروں پیار مِلا، پورے ملک سے چاہت ملی۔ تھیٹر، ٹی وی ڈراما اور فلم میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا میرے لیے بہت مشکل ہے۔ تینوں میڈیم کا میری زندگی میں اہم مقام ہے۔ شوبزنس کی دُنیا میں مجھے کسی خاص منزل تک پہنچنے کی جلدی نہیں ہے۔
میں خود کو کسی ریس میں شامل نہیں کرتی ہوں۔ وقت آئے گا، تو میں اس مقام و منزل تک پہنچ جاؤں گی، جو میری تمنّا ہے۔ اس سفر میں بریک آئے یا نہ آئے، جسے عوام بریک کا نام دیتے ہیں، وہ شاید ہمیں تخلیقی اور عمدہ کام کے لیے وقت دیا جاتا ہو۔ ہم کچھ نیا کرنے میں لگ جاتے ہیں، آف اسکرین کافی سال ہوگئے، مجھے بریک نہیں ملی۔‘‘
آنگن ٹیڑھا کی ’’جہاں آراء‘‘ سے ’’22قدم‘‘ تک کا سفر کیسا رہا؟‘‘ اس بارے میں حریم فاروق کا کہنا تھا کہ ’’یہ ایسا کام یاب سفر ہے، جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ٹی وی، تھیٹر اور فلم تمام میڈیم میں کام کرکے بہت انجوائے کررہی ہُوں۔ میرے لیے یہ سب کچھ چیلنج ہوتا ہے۔ میں خود کو آزماتی ہوں کہ میں کیا کیا کرسکتی ہُوں۔ جہاں آراء کے کردار نے میری زندگی بدل دی تھی اور ان دنوں 22قدم، ڈرامے میں وہاج علی کے ساتھ مجھے پسند کیا جا رہا ہے۔
وہاج علی کے ساتھ کام کرنا اچھا لگا، میں نے 22قدم میں خاتون کرکٹر کا مرکزی کردار نبھایا ہے۔ اس کردار میں حیقیت کا رنگ بھرنے کے لیے دو ماہ تک کرکٹ سیکھی، مجھے باؤلنگ میں بہت مزہ آیا۔ میں نے اپنے کردار کو شوخ و چنچل اور مزاحیہ رنگ بھی دیا۔ یہ کردار ایسی لڑکی کا ہے، جو اپنے خوابوں کی تعبیر چاہتی ہے، وہ کسی کے بارے میں بُرا نہیں سوچتی۔ اس کی زندگی کا ایک مقصد ہے۔ میں نے ایسا محسوس کیا ہے کہ یہ کردار میری زندگی سے تھوڑا بہت ملتا جُلتا ہے‘‘۔
26مئی 1989ءکو پاکستان کے دارالحکومت، اسلام آباد میں جنم لینے والی حریم فاروق نے سوشیالوجی اور جرنلزم میں گریجویشن کے بعد شوبز کو بہ طور کیریئر اپنایا اور اس سفر میں نہایت کام یابی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ وہ صفِ اوّل کی فلم ساز اور اداکارہ بن کر پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کریں۔ وہ کہتی ہیں کہ’’ میرے والدین کا تعلق شعبۂ طِب سے ہے۔ والد ڈبل پی ایچ ڈی اور امّی ماہرِ امراضِ جلد ہیں۔ مَیں نے ابتدائی تعلیم بیکن ہاؤس اسکول سسٹم، اسلام آباد سے حاصل کی ۔ پھراے لیولز کے بعد پنجاب یونی وَرسٹی سے جرنلزم میں گریجویشن کیا۔
ہم دو ہی بہنیں ہیں۔ ہم دونوں بہنوں کا بچپن بہت پیارا تھا۔ مَیں اللہ تعالیٰ کا ہر پَل شُکر ادا کرتی ہُوں کہ اس نے مجھے بہت پیارا، پُر سکون، خُوب صُورت بچپن عطا کیا۔ مَیں انتہائی معصوم ، جب کہ آرزو(چھوٹی بہن) بہت شرارتی تھی۔ مجھے بچپن ہی سے اداکاری کا شوق تھا۔ اسکول ، کالج میں بھی ثقافتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصّہ لیتی تھی اور امّی، ابّو نے بھی کبھی منع نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ’’غیر نصابی سرگرمیوں میں حصّہ لینے سے بچّوں میں اعتماد بڑھتا ہے۔‘‘
مگر سپورٹیو والدین ہونے کے باوجود مجھے لگتا تھا کہ میرے لیے شوبزنس میں کیریئر بنانا مشکل ہے، اس لیے والدین سے کبھی اظہار نہیں کیا ۔ اے لیولز کے بعد لاء کالج میں داخلہ لیا، تو اس دَوران میرے بچپن کے دوست، عثمان خالد بٹ نے ایک تھیٹر پلے میں کام کی پیش کش کی، جس کے آڈیشن میں کام یاب رہی اور پھر ڈرامے میں میرے کردار اور اداکاری کو بھی خوب سراہا گیا۔
تب مجھے احساس ہوا کہ مَیں شوبز کو بہ طور کیریئر اپنا سکتی ہُوں، چوں کہ میری پُوری فیملی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، توجب مَیں نے اُن سے کیریئر کے حوالے سے اپنی خواہش کا اظہار کیا، تو انہوں نے کہا کہ’’ تم ایکٹنگ ضرور کرو، لیکن ساتھ ہی پڑھائی بھی جاری رکھو۔ اور مَیں نے ایک تابع دار بیٹی کی طرح اُن کی بات مانی، شو بز سے منسلک رہتے ہوئے پنجاب یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا۔ زندگی میں بہت سارےلمحات یادگار ہیں۔
میرا بچپن ، نانا، نانی، دادا، دادی کے ساتھ خُوب صورت یادیں سمیٹتے گزرا اور مَیں وہ لمحات کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ الگ الگ فیملی کے ہونےکے باوجود شام میں ہم سب اکٹھے ہوتے تھے۔ سیکھنے کا عمل تو ساری زندگی ہی جاری رہتا ہے۔ میرے نزدیک زندگی خُوب صُورتی کا نام ہے اور مَیں سب سے پہلےوالدین کی احسان مند ہُوں، جو مجھے اس دُنیا میں لائے، میری پرورش کی اور مجھے اپنی پہچان بنانے کے قابل بنایا ،والدین کے بعد عمران کاظمی اور ثمرہ مسلم نے ہمیشہ میرا بھلاچاہا۔‘‘
’’ہر ڈرامے میں شادی کی تقریب اور اداکارہ کو دُلہن کے روپ میں دکھانا کیوں لازمی ہوگیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حریم فاروق نے بتایا کہ ’’لڑکیاں دُلہن بن کر بہت خُوب صورت لگتی ہیں۔ اب توڈراموں کی پروڈکشن کا معیار بھی بہت اعلیٰ ہوگیا ہے، شادی کی تقریب دل کش انداز میں دکھائی جاتی ہے۔ ہمیں شادی دیکھنے کا شوق ہے، شادی کرنے کا شوق ہے، اس میں کوئی بُری بات نہیں ہے۔‘‘
بشریٰ انصاری نے آپ کی اداکاری کی تعریف کی تو اس وقت کیا کیفیت تھی؟ وہ لمحہ مَیں کبھی فراموش نہیں کر سکتی، جب بشریٰ آپا ڈراما ’’آنگن ٹیڑھا‘‘دیکھنے آئیں اور میرے کام کی تعریف کی،جب انہوں نے ڈرامے کے اختتام پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’’جہاں آراء‘‘ کا کردار حریم نے مجھ سے اچھا نبھایا ہے، تو یہ سُن کر میری ٹانگوں سے جیسے جان نکل گئی۔ اس سے قبل جب مجھے میک اَپ رُوم میں بتایا گیا تھا کہ بشریٰ آپا ڈراما دیکھنے آئی ہیں، تو مَیں نے انور صاحب سے کہا کہ ’’مَیں اسٹیج پر پرفارم کرنے نہیں جاؤں گی۔
مَیں نے بار بار کہا کہ یا تو آج کا شو کینسل کروا دیں یا بشریٰ آپا کو واپس بھیج دیں کہ مَیں اُن کے سامنے اداکاری نہیں کر سکتی۔ اورآج جب بھی بشریٰ انصاری ملتی ہیں، تو مَیں اُن سے ضرور کہتی ہوں کہ ’’آپ کی تعریف میری زندگی کی سب سے بڑی اچیومنٹ ہے۔ انورمقصود نے بہت حوصلہ افزائی کی، ریہرسل میں بہت پیار سے سمجھاتےتھے۔ ڈانٹنا تو دُور کی بات، انہوں نے ذرا سی ناراضی کا اظہار بھی نہیں کیا، بلکہ آپ کو ایک بات بتاؤں، انور مقصود نے ’’آنگن ٹیڑھا‘‘ تھیٹر کے لیے لکھنےسے قبل ایک شرط رکھی تھی کہ اگر ’’جہاں آرا‘‘ کا کردار حریم فاروق کریں گی، تو ہی یہ ڈراما لکھوں گا۔
’آنگن ٹیڑھا‘‘ میرا پسندیدہ ڈراما رہا ہے، جب یہ پی ٹی وی سے آن ایئر ہوا تھا، تو اس وقت تو مَیں پیدا بھی نہیں ہوئی تھی، پر یہ ڈراما مَیں نے یُو ٹیوب پر دیکھا اور اس کی دیوانی ہوگئی۔ ہاں ایک اور بات یاد آگئی جب ایک خطر ناک حادثے کے نتیجے میں، میرا بازو ٹوٹ گیا اور مَیں چھے مہینے گھر بیٹھی رہی۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے، جب میں نے ’’آنگن ٹیڑھا ‘‘میں کام کیا تھا۔ اُس وقت میں شوبز میں بالکل نئی نئی آئی تھی۔ مَیں اصل میں لیفٹی ہوں، سارے کام اُلٹے ہاتھ سے کرتی ہوں، اور میرا وہی ہاتھ ٹوٹا تھا۔