• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اخلاقی اقدار‘‘ سوشل میڈیا اس میں مسلسل دراڑیں ڈال رہا ہے

ناہید خان، کراچی

کسی قوم کے اخلاقی بگاڑ کا نتیجہ بالآخر معاشرتی زوال کی صورت میں نکلتا ہے اور افسوس کہ پاکستانی قوم بڑی تیزی سے اس منزل کی طرف گامزن دکھائی دے رہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ کہ ہم اپنی اقدار کے دلدادہ، اپنے ماضی پر فخر کرنے والی قوم ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ تنزّلی کا شکار ہورہا ہے۔ فی زمانہ اگر اس کی وجوہ تلاش کی جائے تو سب سے بڑی وجہ لوگوں کا مادہ پرست ہوجانا ہے آسائشوں کی دوڑ نےانہیں نہ صرف ایک دوسرے کے مدِ مقابل لا کھڑا کیا ہے بلکہ خونی رشتوں کو بھی ایک دوسرے سے لاتعلق بنا دیا ہے۔ 

غور کریں ایک وقت تھا کہ سب مل جل کر رہتے تھے۔ آج دیکھیں تو کس طرح ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی مزاج آشنائی نہیں۔ پڑوسیوں سے لاتعلقی، رشتے داروں سے دوری برحتی جارہی ہے، یہاں تک کہ والدین بچوں کےمستقبل بنانے کی دھن میں ان کے حال و مستقبل کو اخلاقی طور پر ان جانے میں تباہ کررہے ہیں۔ ان کی تر بیت سے لا پروا ہیں۔

ماں وہ ہستی ہے جو اولاد کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے اس کی دلی کیفیت کا اندازہ کرلیتی ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ برابر میں بیٹھے پپ جی کھیلنے والی اولاد کی کیفیات اس کی زیرک نظروں سے اوجھل ہوجائیں وہ جان ہی نہ پائے کہ اولاد کے ذہن میں کیا چل رہا ہے یا پھریوں کہیں کہ اکثر والدین میں ترجیحات بدل گئی ہیں۔ 

بہر حال وجوہات جو بھی ہوں، مگر مسئلہ بڑا گھمبیر ہے۔ سچ پوچھیں تو والدین نے اپنی ذمہ داریاں چھوڑدی ہیں۔ اب خالی جگہ کوئی تو پرکرے گا سو یہ ڈیوٹی سوشل میڈیا بڑی تن دہی سے انجام دے رہا ہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے اور سب جانتے ہیں کہ کسی خبر کی مسلسل گردان کرنا اصل میں عوام کو اس فعل کا عادی بنانا ہے، تاکہ لوگ برائی کو برائی سمجھنا چھوڑ دیں اور اسے کرگزرنے میں کوئی ملامت نہ ہو۔

اب بھی اکثر خاندانوں میں اخلاقی اقدار ہیں۔ وہاں آج بھی جوان بیٹا خاموش کھڑا باپ کی ڈانٹ سنتا ہے۔ آفس سے گھر پہنچنے میں دیر ہوجائے تو والدین کو اطلاع دینا اپنا فرض س سمجھتا ہے،پر’’ پریشان نہ ہونا گھر پہنچنے میں دیر ہوسکتی ہے ۔‘‘یہ باتیں پتہ دیتی ہیں، روح ابھی پوری طرح مری نہیں، گو کہ یہ پیڑھی اب ختم ہونے کو ہے اور ان اقدار کو ڈھانے کے لیے پے در پے حملے شدید ہورہے ہیں، مگر معاشرہ ان چند خاندانی نفوس کی وجہ سےابھی تک مضبوط ستونوں پر قائم ہے۔

ماضی میں ان روایات کی سختی سے پاسداری برتی جاتی تھی جب گھروں میں چچا تایا ،خالہ زاد و دیگر رشتے چاہے بچپن میں ساتھ پلے بڑھے ہوں، مگر بالغ ہوتے ہی ماں دادی نانی کے زیر تربیت رہ کر اٹھنے بیٹھنے اور بول چال کے طریقے سیکھ کر اعلیٰ اخلاق کے مظہر بنے، اس لیے ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا مضبوط خاندانی نظام ہر غلط روی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ رہا ہے، لیکن اب سوشل میڈیا اس میں مسلسل دراڑیں ڈال رہا ہے۔ نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی بےراہ روی اسی کے باعث ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ستونوں کو مضبوط کیا جائے، ہر فرد اپنے مقام کو سمجھے۔ 

اولاد کی ضرورتوں کا خیال اور ان کے اخلاقی تربیت کرنا ماں باپ کا فرضِ عین ہے، مگراس میں بے اعتدالی بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔ موجودہ صورت اس کی واضع دلیل ہے۔ فرمانِ نبی ﷺ کا مفہوم ہے کہ ایک باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہتر اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ اقوام کی تاریخ میں تعلیم و تربیت کا نظریہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ والدین کے ساتھ ساتھ خاندان کے تمام افراد کی ذمہ داری ہوتی ہے، سب مل کر بچوں کو اخلاقیات، روایات کے ساتھ عبادات کا سبق پڑھائیں۔ ایسا صرف ان ہی خاندانوں میں ممکن ہوتاہے، جہاں ضروریات زندگی کے ساتھ تمام رشتے اپنا فرض منصبی سمجھ کر بچوں کی تربیت و تعلیم پر توجہ دیتے ہیں۔

یہ تربیت ہی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے آج ہمارامعاشرہ اخلاقی پستی کی طرف رواں ہے۔ ملک کے زیادہ تر خاندان غربت افلاس کے باعث ضرورت زندگی کے حصول کے لیے ہمہ وقت کاموں میں مصروف رہتے ہیں وہ پیسہ کمانےکے چکر میں اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دیتے، ان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجاتا ہے۔ تہذیب، اخلاقی اقدار اور روایات کی تعلیم نہ دینے سے بچوں کی تربیت میں بدکلامی و بد تہذیبی کا عنصر فروغ پا رہا ہے۔

بچپن سے وہ منفی سرگرمیوں اور بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں، اگر ان کی صلاحیتوں کو صحیح سمت مل جائے تو وہ اعلی مقام تک پہنچ سکتے ہیں۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب والدین، اساتذہ اکرام اور معاشرتی ادارے مل کر اپنے فراض ، زمہ داریوں کو سمجھیں۔