• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلیم کاوش

سنا ہے استانیاں کڑوس اور کنجوس ہوتی ہیں۔

فل سکیپ سائز کے کاغذ کو پرس میں گُسانا انہیں خوب آتا ہے۔

کیا مساواتی مزاج پایا ہے ۔

مختلف علاقوں کے سفری اخراجات کرایوں کی تفصیلات اور نرخ ان کے پوروں پر ہوتے ہیں۔

جتنی یہ میٹنگز اٹنڈ کرتی ہیں اگر وزارت کی بنیاد ان پر ہو تو وزیر اعلٰی سے کم درجے کی مستحق نہیں۔

بلکہ وزیر ان کے سامنے نائب قاصد لگتے ہیں۔

بے فکری کی نیند سونے کی عمر سے فکرمندی اور ذمہ داری سے جاگنا ان کی شخصیت کا خاصہ ہوتا ہے۔

گھریلو حالات یا تعلیمی ضروریات کے پیش نظر تدریس کے شعبہ سے منسلک ہوں یا شوقیہ اور وقت گذاری کے لیے، ان میں احساس ذمہ داری، خود انحصاری اور قابل انحصار ، قابل اعتبار و انحصار خصائل کا پیدا ہونا قدرتی ہو جاتا ہے۔

اوائل عمری کی فطری رونق اور میک اپ کے ساتھ اسکول میں جانا، ساتھی معلمات کے مثبت اور منفی رویوں کو برداشت کرنا، افسران بالا کی بے موقع اور کبھی کبھی بے تکی سرزنش کو تحمل سے صرف اس لئے سننا کہ مالی اخراجات پورے کرنے میں تعطل نہ آئے۔ یہ معمولی بات نہیں۔

صنف نازک ہو کر جب یہ اپنی پنشن تک کا حساب کتاب کرتی ہیں تو مضبوط آدمی بھی ان کے عزم وہمت کے سامنے ٹوٹ کر رہ جاتا ہے ۔

مجبور و لاچار استانیاں جب اپنی ملازمت کے تقاضوں کے تحت رنگ برنگے لباس پہن کر نکلتی ہیں تو ان کے اندر کی پریشانیاں ان سب رنگوں کو پھیکاکر دیتی ہیں۔

ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتی معاشی ضروریات ان کو تھکنے یا سست ہونے نہیں دیتیں۔

شادی کے بعد ان کی محنت مردوں سے دو گنا اور ان کی عزت کسی گھریلو عورت سے بھی آدھی رہ جاتی ہے ۔

ان کے لیے چوبیس گھنٹوں میں 48 گھنٹوں کا شیڈول بنایا جاتا ہے۔

گھر،اسکول، بچے اور خاندان میں ہونے والی تقریبات کا گھن چکر اور پر بھی یہ صنف نازک!!

میں نے ان استانیوں کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے اپنی تنخواہ ، اسکیل اور عہدہ بڑھانے کے لیے بچوں کی پیدائش کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی قابلیت بھی بڑائی۔

ہمیں یہ تو فخر ہوتا ہے کہ ہماری بیوی ڈاکٹر ، پروفیسر یا بینکر ہے۔ کبھی یہ بھی سوچا کہ کسی کی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کن حالات میں گھر سے نکل کر ہماری خواتین کو پڑھاتی ہیں؟

استانیاں اگر معاشرے کے برے ماحول سے دلبرداشتہ ہو کر شعبہ تدریس میں نہ آتیں تو آج ہمارے گھروں میں جہالت ہوتی۔

ہماری بچیوں اور خواتین کو پڑھانے کے لیے دوسروں کی خواتین گھروں سے باہر آئیں اور انہوں نے جتنا وقت دیا ہمیں اتنا نہیں تو تھوڑا وقت ضرور لوٹانا چاہیے۔

اپنی باصلاحیت خواتین کو معاشرے میں خواتین کی تعلیم و ترقی کے لیے ضرور موقع فراہم کرنا چاہیے۔

آئیے عہد کریں کہ استانی کسی بھی جگہ پر ہو ہمارے بچوں کو پڑھائیں یا نہ پڑھائیں ان کا احترام کرتے ہوئے انہیں ایک محفوظ اور با عزت ماحول دیں۔استاد یا استانی کا احترام ہی ہمیں با ادب نئی نسل اور اس کا روشن مستقبل دے سکتا ہے۔