اسلام آباد (صالح ظافر) ڈائریکٹر جنرل اسٹریٹجک پلانز ڈویژن لیفٹیننٹ جنرل (ر) سرفراز ستار نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت اپنے انشقاق پذیر (پھٹ پڑنے والے) مواد کے ذخیرے میں بے مثال اضافے اور ہر قسم کے ہتھیاروں کے نظام اور ٹیکنالوجیز کے حصول کیلئے تُلا ہوا ہے اور یہ خطے اور اس سے باہر کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ وہ ملک قاسم مصطفیٰ کی تدوین کردہ ’’ابھرتے خطرات اور نظریات کی تبدیلی: جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک استحکام کے لیے چیلنجز‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب کی رونمائی کے موقع پر کلیدی خطاب کر رہے تھے۔ اس تقریب کی میزبانی انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز آئی ایس ایس آئی میں آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرمامنٹ سینٹر نے کی۔ جنرل نے کہا کہ پاکستان کو مستقبل کے ہنگامی حالات کے لیے خود کو تیار کرنے کی ضرورت ہے جہاں وہ مختصر وقت میں بالادستی کے حصول کے لیے اس طرح کے کورس کے اطلاق کو دیکھ سکتا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ بھارت اپنی جوہری طاقت کے ساتھ ایک تسلط پسندانہ عزائم رکھتا ہے اور وہ پاکستان پر دباؤ ڈالتا رہے گا اور اسے لڑنے یا ہار ماننے پر مجبور کرے گا۔ ہمارے پاس ایک ہی انتخاب رہ جاتا ہے کہ جنگ کے بغیر جو بھی وسائل ہمارے پاس ہیں ان سے اس تسلط کو شکست دینے کی کوشش کریں۔ اگر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو پھر فیصلہ کے وقت قوتوں کے باہمی تعلق کو بہتر بنا کر اسے جیتنے کے لیے جو کچھ کرنا پڑے وہ کریں۔ سابق سیکرٹری خارجہ اور ڈی جی آئی ایس ایس آئی کے سفیر سہیل محمود نے کہا کہ یہ کہنا کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ دنیا آج ایک بڑے اہم موڑ پر ہے۔ روایتی اور غیر روایتی سیکورٹی ڈومینز میں جغرافیائی سیاست میں شدت اور پرانے اور نئے خطرات کا پھیلاؤ ہے۔ طاقت کا بڑا مقابلہ؛ یورپ میں فوجی تنازع؛ خوراک، ایندھن، اور مالی بحران اور دنیا کے مختلف حصوں میں طویل عرصے سے حل نہ ہونے والے تنازعات موجودہ فالٹ لائنز کو نمایاں کرنے اور تمام خطوں میں تناؤ کو بڑھانے کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دریں اثنا سازادانہ تجارت کا نظریہ کمزور ہونے کی جانب رجحان واضح ہے۔ اسٹریٹجک ہتھیاروں کے کنٹرول اور تخفیف اسلحہ کا نظام ٹوٹ رہا ہے۔ کئی ممالک اور خطوں کو دوبارہ مسلح کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اے آئی کی غیر منظم ترقی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز مزید عالمی عدم استحکام کے خطرات کو بڑھا رہی ہیں۔ دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی کے وجودی خطرے سے نمٹنے کے لیے ابھی تک کوئی جامع کارروائی نہیں ہوئی۔ بلا شبہ جنوبی ایشیاء کے سیکورٹی ماحول میں تبدیلی میں عالمی محرکات اور علاقائی حرکیات دونوں ہیں۔ انہوں نے اس کتاب کے ہر باب کی انفرادیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں پاکستان جیسی ریاست کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے پڑوس میں درپیش چیلنجز سے آگاہ ہو اور ان سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے طریقے تلاش کرے۔ ملک قاسم مصطفیٰ نے کہا کہ بھارت اپنی پوزیشنوں سے ہٹ رہا ہے اور روایتی اور جوہری جنگ کے اصول تیار کر رہا ہے؛ اس کی روایتی اور ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیتوں کو جدید اور بہتر بنارہا ہے؛ ہائپرسونک اور بیلسٹک میزائل پروگراموں کا تعاقب کر رہا ہے؛ بحر ہند کو ایک نام نہاد ’’نیٹ سیکورٹی فراہم کنندہ‘‘ کے طور پر کنٹرول کرنا چاہتا ہے وغیرہ۔ غزالہ یاسمین جلیل سید نے کہا کہ بھارت کی نظریاتی تبدیلی اور درست طریقے سے حملہ کرنے والے ہتھیاروں نے جوہری ڈیٹرنس کو ختم کردیا۔ اپنے ریمارکس میں ڈاکٹر عقیل اختر نے کہا کہ سمندر پر مبنی جوہری صلاحیتوں کی ترقی بھارت کی جوہری جدید کاری کا ایک اہم جزو ہے جس سے اسلحے کی دوڑ میں عدم استحکام، جارحانہ جوہری پوزیشن، کمانڈ اینڈ کنٹرول سے متعلق مسائل اور خطے میں الرٹ کے اعلیٰ سطح کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر احمد خان نے بھارتی خلائی عزائم کو بدلتے ہوئے جنوبی ایشیا کے تزویراتی منظرنامے سے جوڑا۔