اسلام آباد(ٹی وی رپورٹ) نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں چھوڑاگیا امریکی اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال ہورہاہے ‘ چین ایران سمیت خطے کے دیگر ممالک کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑے گا‘خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری ہمارے ایجنڈے پر ہے ‘چند روز میں ہم نے اس کام کو پانچ دس فیصد آگے بڑھایا ہے‘ مسئلہ کشمیر حل ہونے تک بھارت سے تجارتی تعلقات بحال نہیں ہوسکتے ‘ کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچستان میں جنگجوؤں کے خلاف طاقت اور مذاکرات دونوں آپشن کو استعمال کرنا پڑےگا‘ عدلیہ نے کہا تو 90روز میں الیکشن کروادیں گے۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے جیونیوز کے پروگرام ’’جرگہ ‘‘میں میزبان سلیم صافی کو انٹرویو کی آخری قسط میں کیا۔انوارالحق کاکڑنے بتایاکہ نگراں وزیر اعظم نامزدہونے سے دوتین روز پہلے انہیں شہبازشریف کا فون آیاتھا جس پر انہیں حیرت ہوئی تھی ‘پھر مجھے رابطہ کرکے بتایاگاکہ آپ کو اہم ذمہ داری دینے پر غورہورہاہے ‘ذہنی طورپر تیاررہیں ۔ نگراں حکومت کی مدت سے متعلق سوال پران کا کہنا تھاکہ آئین وقانون کے تحت جتنا وقت ہمیں متعین ہوگااس سے ایک گھڑی بھی زیادہ اپنے منصب پر نہیں رہوں گا‘اس کا تعین ظاہر ہے قوانین کریں گےاور یہ عمل انتخابات کی تکمیل سے جڑاہے ۔ٹیکس نظام میں بہت خامیاں ہیں ‘امیروں سے ٹیکس لیکر غریبوں پر خرچ کرنے کی اس نظام میں صلاحیت نہیں‘ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی صورت میں تمام لوگوں کو یکساں ٹیکس دینا پڑرہاہے‘امیروں پر خصوصی ٹیکس لگانے سمیت تمام آپشنز پر غور کر رہے ہیں ۔ دیگر بھی شعبے ہیں جہاں سے ہم ٹیکس اکٹھا نہیں کرپارہے‘اس کام میں تھوڑا سا وقت درکار ہے اور دقت بھی ہوگی ۔ پی آئی اے ‘ریلوے اور خسارے میں چلنے والے دیگر اداروں کی نجکاری سے متعلق سوال پر نگراں وزیراعظم نے کہاکہ نجکاری کا ایک پورا پراسس ہوتاہے اور یہ ہمارے ایجنڈے پر ہے ۔اس ایجنڈے کے تحت ہم کوئی پچاس سے ساٹھ فیصد جو کام ہے، کچھ ماضی کی حکومتوں نے اس سلسلہ میں کیا ہوا ہے اور پانچ دس فیصد ان چند دنوں میں ہم نے اس کام کو آگے بڑھایا ہے۔ تحریک طالبان اور بلوچستان میں جنگجوؤں کی بڑھتی کارروائیوں سے متعلق سوال پر انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ ہماراخیال تھاکہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد پاکستان کے لئے نسبتاً حالات بہتر ہونگے لیکن وہ بہتر نہیں ہوئے بلکہ بگڑ گئے اور اس کی بڑی وجہ افغانستان میں چھوڑے گئے امریکا اور نیٹو کے جدید ہتھیار ہیں ۔یہ ہتھیار صرف پاکستان نہیں بلکہ چین اور ایران سمیت پورے خطے کے لئے خطرہ ہیں ۔ہمارے خلاف ان کا استعمال شروع ہوچکا ہے ۔ باقیوں کو اپنا انتظار کرنا پڑے گا کس وقت یہ ان پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کے سوال پر انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ اس معاملے میں بڑی کنفیوژن ہے ۔شاید کچھ ہمارے جیسے دوست ہیں وہ نہیں چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں جنگجوؤں کے ساتھ مذاکرات ہوں۔ ان کے خلاف طاقت کا استعمال ہو یا ٹی ٹی پی کے ساتھ طاقت کا استعمال ہو۔ مذاکرات ہوں یا نہ ہو۔ یہ بحث عام طور پر مختلف حلقوں میں میں ہوتی آرہی ہے‘ریاست کے پاس دونوں آپشن موجود ہیں جس میں مذاکرات اور طاقت کا استعمال شامل ہیں ۔ ہم نے اپنی بصیرت کے مطابق سوچنا ہے کہ کس وقت کونسی چیز کا فائدہ ہوگا۔میرے خیال میں آپ کو دونوں کا استعمال کرنا چاہیے اور کرنا پڑے گا۔انڈیا کے ساتھ تجارت سے متعلق سوال پر نگراں وزیراعظم کا کہناتھاکہ یہ فیصلہ بھارتی سیاستدانوں نے کرناہے ‘یہ انڈین سول سوسائٹی نے کرنا ہے او راس میںدنیا شاید پاکستان کو ایک ذمہ دار پارٹنر کے طور پرپائے گی ۔مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر انڈیا سےمعمول کے مطابق سفارتی اورتجارتی تعلقات بحال نہیں ہوسکتے لیکن مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم ہندوستان سے ہمہ وقت جنگ چاہتے ہیں ۔