روزینہ آصف
معاشرے کا ایک عمومی رویہ جو بہت عام ہے۔ والدین بچوں کی اچھی عادتیں خود سے منسوب کر دیتے اور بری عادتوں کا ملبہ دوسروں پر ڈال دیتے ہیں جیسے بچہ ان کا نہیں کسی اور کا ہو۔ جب کہ بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ آپ اپنے بچے میں اگر کچھ برا محسوس کریں تو اس کا الزام ایک دوسرے کو دینے کے بجائے، اس کی وجوہات جان کر اس کا سدباب کریں ،کیوں کہ اولاد آپ کی ہے تو اس کا اچھا اور برا پہلو بھی آپ کے ہی ہیں۔
درحقیقت بچے اپنے والدین کا عکس ہوتے ہیں تبھی تو کسی لڑکی کا رشتے کرتے وقت یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں رشتہ کرنے سے پہلے لڑکی کی ماں کے طور اطوار اور اس کا سگھڑاپا دیکھا جاتا ہے۔ یہ دیکھنا شکل و صورت کا نہیں ہوتا بلکہ وہ رشتوں کو کیسے برتتی ہے، گھر گر ہستی میں کیسی ہے۔ اور صرف گھر گر ہستی سنبھالنا ہی تربیت میں شامل نہیں۔
بلکہ دوسروں سے اس کا اچھا اخلاق برتنا بھی اس کی اچھی تربیت ہونے کی علامت ہے۔ ماں اپنی بیٹی کی تربیت اپنے مزاج کے مطابق ہی کرتی ہے اور کچھ عادات واطوار بیٹیاں ماں کو دیکھ کر ہی سیکھ رہی ہوتیں ہیں ۔اسی طر ح لڑکے اپنے باپ سے بہت سی عادتیں سیکھتے ہیں ،ان کامزاج بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
تو والدین اپنی عادات و اطوار کے حساب سے اپنے بچوں کے لئے لیڈنگ رول پلے کرتے ہیں۔ بچوں کی شخصیت بنانے اور بگاڑنے دونوں میں والدین کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر معاشرہ اپنا کردار اسی حوالے سے ادا کرتا ہے، جس طرح کی بچے کی شخصیت بن چکی ہوتی ہے۔ تو بچے کے لئے پہلی درسگاہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہوتا ہے۔ اور اس طرح گھر اور رشتوں سے متنفر اور باغی بچہ ہوگا تو باہر لوگ اسے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کریں گے، کیوں کہ وہ ان کے لئے آسان ہدف ہوتا ہےجو کہ پہلے سے ہی گھر اور رشتوں سے نالاں ہوتے ہیں۔
جب کہ ایک اچھے ماحول میں پرورش پانے والا بچہ پر اعتماد ہو گا وہ باہر لوگوں میں اپنا آپ منوانے کا ہنر جانتا ہو گا تو اس کی شخصیت کے روشن پہلو دیکھ کر باہر بھی اسے پزیرائی ملے گی۔ والدین کو چاہیے کہ بچّوں کی اچھی تربیت کے لیے بنیادی باتیں سمجھنا بہت ضروری ہیں، آپ خود ذہنی طور پر سکون ہونے کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ اگر آپ ذہنی طور پر پریشان ہوں گے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا ردِعمل بچّوں پردکھا دیں گے ۔ اور ایسے میں والدین مزید ذہنی دباؤ کا شکار ہو جائیں گے کہ شاید وہ اولاد کی اچھی تربیت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
ہر والدین اچھی تربیت کرسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہمیں اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کے حوالے سے آگاہی ہو اور ہم انہیں بہتر کرنے کے لیے تیار بھی ہوں۔ مسائل کے بارے میں ہر وقت سوچ کر مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ان کی وجہ ڈھونڈنے کے بعد ان وجوہات کو ختم کرکے مسائل حل ہوتے ہیں۔ اپنی زندگی میں آپ لیڈرول ہیں، آپ ہیرو ہیں، آپ ہیروئین ہیں۔ آپ کی بنیادی ذمہ داری خود کو پرسکون رکھنا ہے اور یہ آپ کا حق ہے۔ آپ مطمئن ہوں گے تو ہی بچوں کی تربیت اچھے انداز میں کرسکیں گے۔ جب آپ اپنی زندگی نظم و ضبط اور اپنے فرائض کو جانفشانی سے ادا کرتے ہوئے گزاریں گے تو آپ کو کوئی غیر ضروری قربانی بھی نہیں دینی پڑے گی ،جس کا بدلہ نہ ملنے پر آپ کو افسوس کرنا پڑے۔