• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  ایمن علی منصور

آج کے نوجوان دنیا و مافیا سے بالکل بے خبر اپنی اپنی دنیا میں مگن ، اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ ہم نے جس ملک میں آنکھ کھولی ہے وہ کتنی قربانیوں کے بعد بنا ہے۔ ہم نےتو صرف کہانیاں ہی پڑھی ہیں۔ آزادی کا درد تو وہی جانتے ہیں، جنہوں نے اس ملک کی خاطر تن من دھن، مال سب کچھ گنوا دیا۔ لیکن پھر کیا ہو؟ آج دیکھیں تو سہی کیا ہو رہا ہے، کیا یہی وہ پاکستان ہے جس کی خاطرہمارے بزرگوں نے اپنا سب کچھ گنوا دیا تھا؟ بہن سولی پر، بھائی آگ کی بھٹی میں جل بھن گئے۔ ماؤں کے لال بے دردی سے ان کی آنکھوں کے سامنے مارے گئے۔ انہوں نے کربناک ساعتیں گزاریں،تا کہ اُن کی آنے والی نسلیں آزاد ملک میں سانس لے سکیں۔ لیکن افسوس کہ آج جو کچھ اس ملک میں ہورہا ہےاُسے دیکھ کر وہ دکھ اور کرب کی بھٹی میں جل رہے ہیں۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

نئی نسل اس بات سے بالکل انجان ہے کہ ہم نے جس زمین پر چلنا سیکھا،اس کی مٹی میں سیکڑوں نوجوانوں کا خون شامل ہے لیکن وہ اس بات سے بالکل بے خبر زندگی گزاررہے ہیں ۔ غور کریں، ایسے کتنے نوجوا ن ہیں جو عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، اُن کا جیب خرچ ہی ہزاروں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک دن بھی اپنا جیب خرچ کسی غریب کودینا گوارا نہیں کرتے۔ چھوٹے چھوٹے غریب بچوں کو بھی مزدوری کرتا دیکھ کر دل نہیں کانپتا۔ 

حد تو یہ ہے کہ اگر ان کے سامنےکوئی بچہ مٹی میں لپٹا گندے میلے کپڑے پہنا اُن کے سامنے آجائے تو اس پر ناک بھونیں چڑھاتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ ہم صرف ایک تماش بین ہیں جو تماشا دیکھنے کے بعد تالیاں پیٹ کر منظر سے چلے جاتےہیں۔ خدارا آگے بڑھیں یہ دھرتی مزید ظلم نہیں سہہ سکتی اپنی موبائل فون کی اسکرین سے ذرا نظریں ہٹا کر تو دیکھیں کہ اس ملک کو کن مشکلات و مسائل کا سامنا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ملک کی صورت حال ابترہے لیکن اللہ سے مدد مانگی جائے اور احکام الہٰی کو مدنظررکھتے ہوئے کام کیا جائے تو ملک بہتری کی جانب ضرور گام زن ہوگا۔ ملک کی بہتری کے لئے کام کریں، چاہے ایک سکہ سے شروعات کریں لیکن کریں ضرور۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ایک دن کسی مزدور کو آگے بڑھ کر پانی کے دو گھونٹ پلا دئیں، کسی بچے کو اس کے کام کا معاوضہ دس روپے زیادہ دے دیں، کسی بہن کے سر پر دست شفقت رکھ دیں، کسی ماں کو تسلی کے دو بول ہی بول دیں، اُس لمحے اُن کی خوشی کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ یقین کریں ترقی ہی چھوٹی چھوٹی نیکیوں میں چھپی ہے۔اصل بات ایثار اور ہمدردی کی ہےجو ہمارے اندر سے بالکل ہی معدوم ہوتی جا رہی ہے ہم نے تکبر اور غرور کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ 

 اگر وہ غریب اور آپ امیر ہیں تو اس میں ان کا ہر گز کوئی قصور نہیں بلکہ یہ ان کے صبر اور آپ کے شکر کی آزمائش ہے۔ نرم بستروں اور من چاہے طعام و قیام میں تڑپتی روحوں کا اندازہ لگانا صرف کہنے کی بات ہے۔ بے شک اللہ بھی عدل و انصاف اور احسان کا حکم دیتا ہے۔نوجوانوں کو بھی حکم ا لہٰی پر پیروی کرتے ہوئےناانصافی اور ظلم کو ختم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ خواہ وہ کلاس روم سے ہی کیوں نہ شروع کریں۔ 

عدم مساوات سےمعاشرہ کو برباد ہو رہا ہے، لہذا آگے بڑھیں لوگوں کی مدد اپنی گلی کے غریب بچوں سے شروع کریں، نئی نہیں تو اپنی پرانی کتابیں بچوں کو تقسیم کریں ،اُن بچوں کو آداب ضرور سکھائیں۔ اپنے خاندان کی بیٹیوں کی عزت کریں، ان کی عزتیں پامال ہونے نہ دیں۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کریں لیکن افسوس تو یہ ہے کہ یہ ملک جو دنیاوی تعلیم سے گل و گلزار نہیں ، نسلِ نو دینی تعلیم سے بھی بے بہرہ ہے۔ دیکھ لیں کیسے آج کی نئی نسل قلم پکڑنے کے بجائے سگریٹ پکڑتی ہے۔

آپ ہی لاٹھی چھین کر دھکا دینے والے نہیں بلکہ ہاتھ بڑھا کر سہارا دینے والے بنیں۔ استاد کا احترام کرنےوالے بنیں، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات منوانے والے نہیں بلکہ محترم انداز میں نظریں جھکا کر بات منوانے والے بنیں ۔ اپنی زندگی کا قبلہ درست کریں وہ زندگی جئیں جو اسلام سکھاتا ہے وہ نہیں جو آج کے نوجوان مغربی اقدار سے سیکھ رہے ہیں۔