اسلام آباد (رپورٹ،رانا مسعود حسین)سپریم کورٹ میں تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے’فیض آباد انٹر چینج‘ پر دیئے گئے دھرنے کے خلاف ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کیخلاف دائر کی گئی وزارت داخلہ، وزارت دفاع، ، پیمرا، آئی بی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور شیخ رشید وغیرہ کی نظرثانی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کردی گئیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بنچ جمعرات 28 ستمبرکو کیس کی سماعت کرے گا، یاد رہے کہ 6فروری 2019کوجسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کھلی عدالت میں یہ فیصلہ جاری کیا تھا، جسے 22 نومبر کو فریقین کے وکلاء کے دلائل کمل ہونے کے بعد محفوظ کیا گیا تھا، 43صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قلمبند کیا تھا، جس میں عدالت نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)کی جانب سے 2017 میں ’فیض آباد انٹر چینج‘ پر دیئے گئے دھرنے کے خلاف ازخود نوٹس کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکومت پاکستان، وزارت دفاع اور مسلح افواج کے سربراہان کو اپنے حلف سے رو گردانی کرنے کے مرتکب ’اپنے اپنے ماتحت افسران‘ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملک میں نفرت پھیلانے، انتہا پسندی کو فروغ دینے اور دہشت گردی کرنے والوں کی کڑی نگرانی کرنے اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم بھی جاری کیا تھا، عدالت نے قرار دیا تھا کہ غیرقانونی طور پر جنگ، جیو میڈیا گروپ اور ڈان میڈیا گروپ کی نشریات کینٹ بورڈ کے علاقوں اور ڈی ایچ اے وغیرہ میں بند کی گئی ہیں اور پیمرا اپنے ان لائسنس یافتہ براڈ کاسٹرز کو تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے اور نہ ہی اب تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا ہے، عدالت نے قرار دیا تھا کہ حکومت کا کوئی بھی ادارہ یا ایجنسی اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرسکتا ہے، کسی بھی ایجنسی یا ادارے کو آزادی اظہار پر پابندی لگانے، ٹی وی نشریات، اخبارات کی اشاعت میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے خلاف آبزرویشنز بھی دی تھیں، جن میں کہا گیا تھا کہ سانحہ12 مئی پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے تشدد کے ذریعے ایجنڈے کے حصول کی حوصلہ افزائی ہوئی اور قتل، اقدام قتل میں ملوث حکومت میں شامل بڑے افراد کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے بری مثال قائم ہوئی ہے اور تشدد کے ذریعے ایجنڈے کے حصول کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے، عدالت نے قرار دیا تھا کہ ریاست کو غیرجانبدار اور منصفانہ ہونا چاہئے، قانون کا اطلاق یکساں طور پر سب پر لاگو ہونا چاہئے، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا ریاستی اداروں میں، اور آزادانہ طور پر اپنے فرائض منصبی نبھانے چاہئیں، فیصلے کے خلاف وزارت داخلہ، وزارت دفاع، وزارت داخلہ، پیمرا، آئی بی، پی ٹی آئی ایم کیو ایم اور شیخ رشید نے 15 اپریل 2019 کو نظر ثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں، یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ’فیض آباد دھرنا کیس‘ کے فیصلے کے اجراء کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے وزیراعظم عمران خان نے پراسرار طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے خاندان کی جاسوسی کرواکے ان کے اثاثوں سے متعلق ایک مبینہ جھوٹا اور بے بنیاد ریفرنس صدر عارف علوی کو بھجوایا تھا جسے انہوں نے جائزہ لئے بغیر ہی سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوادیا تھا، یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے دور میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے الیکشن ایکٹ 2017میں حلف نامے کے الفاظ کو I solmenly Swear سے I believe میں تبدیل کئے جانے پر ملک بھر میں وسیع پیمانے پر احتجاج شروع ہوگیا تھا، جس پر 19اکتوبر کو پارلیمنٹ نے پہلے والے قانون کو ہی بحال کردیا تھا، لیکن اس کے باوجود تحریک لبیک پاکستان نے5 نومبر 2017 کو فیض آباد انٹر چینج پر 22 روز تک دھرنا دے کر عملی طور پر دونوں شہروں کو مفلوج کرتے ہوئے حکومت سے پہلے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کو ہٹانے اور بعد ازاں حکومت ہی کو مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔