اسلام آباد (نمائندہ جنگ)چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکلاء پر واضح کردیا ہے اپنے ذہن سے یہ بات نکال دیں کہ اب مقدمات میں کسی کو بلاوجہ التواء ملے گا،سپریم کورٹ میں اب مقدمات میں التواء دینے کا تصور ختم سمجھا جائے، وکلاء اور فریقین مقدمہ اپنے ذہنوں سے یہ تصور ہی نکال دیں کہ سپریم کورٹ میں جاکر تاریخ لے لیں گے ،کسی بھی کیس میں ایک تاریخ پر فریقین کو نوٹس جاری اور اگلی سماعت میں دلائل پر فیصلہ ہوگا، یہ پیغام سب کیلئے ہے،دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ کون ہوتا ہے اراضی منتقلی پر پابندی عائد کرنے والا؟کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی قانونی طور پر قائم شدہ ادارہ ہے جس میں وزیراعلیٰ کا اختیار نہیں بنتاہے،آپ حاتم طائی مت بنیں، ایسے تو بہت سے کھاتے کھل جائینگے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان او ر جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پیر کے روز کوئٹہ سریاب رنگ روڈ کی اراضی حوالگی کے معاہدے سے متعلق ایک مقدمہ کی سماعت کی تو درخواست گزار عبدالعباس کے وکیل نے کہا کہ معاہدہ ہونے کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان نے زمین منتقلی پر بین Bain لگا دی ہے،جس پر فاضل چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ یہ بین کیا ہوتا ہے؟ اسکا ترجمہ کیا ہے؟ تو وکیل جواب دینے سے قاصر رہے ،اور کہا کہ معاہدے کی ڈیٹ سے ابتک سہراب رنگ روڈ سے متصل زمین تاحال خالی ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ڈیٹ ہوتی ہے یا تاریخ؟ آپ کسی ایک زبان میں دلائل کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ ایسے تو سمجھ ہی نہیں آتی ہے، دلائل بھی ایک زبان میں دیں، اپنی اردو بہتر کریں یا انگریزی؟فاضل چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ کا موکل 35 سال بعد عدالت میں آگیا ہے کہ معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہواہے ،یہ نہیں ہو سکتا کہ درخواست گزار کے دوست حکومت یا انتظامی عہدوں پر آجائیں تو دعوی دائر کر دے ؟وکیل نے کہا کہ میرا موکل چاہتا ہے کہ اس کی باقی اراضی بھی کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی لے لے، لیکن وزیر اعلیٰ نے زمین کے تبادلے پر بین عائد کر رکھا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ کون ہوتا ہے اراضی منتقلی پر پابندی عائد کرنے والا؟وکیل نے التواء کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے حقائق پیش کرنے کیلئے ایک اور موقع دیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے ذریعے سب کو پیغام ہے کہ اب کوئی التوا ء یا مہلت نہیں ملے گی، سپریم کورٹ میں بہت زیادہ مقدمات پہلے ہی زیر التواء ہیں، کسی بھی کیس میں اب ایک تاریخ پر فریقین کو نوٹس جاری ہوگا۔