اسلام آباد (رانامسعود حسین /ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا از خود نوٹس نظرثانی کیس میںعدالتی فیصلہ پر عملدرآمد سے متعلق حکومت سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے 27 اکتوبر تک فریقین کے وکلاء کو تحریری جوابات جمع کرانے کا حکم دیدیا اور سماعت یکم نومبرتک ملتوی کردی ۔ دوران سماعت وفاقی حکومت ‘الیکشن کمیشن اورپی ٹی آئی نے اپنی نظرثانی درخواستیں واپس لے لیں جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ درخواستیں واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں ‘ سچ بول دیں ‘کس سے ڈررہے ہیں ؟جزا تو بعد کی بات ہے ،پہلے اعتراف تو کریں کہ درخواست واپس لینے کا حکم اوپر سے آیا ہے ‘ ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلیں ‘ اگر اس وقت اس فیصلہ پر عمل ہوجاتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے ‘ جہاں سے نظرثانی آنی چاہئے تھی وہاں سے نہیں آئی ‘ ہم ریاستی اداروں کو مستحکم کررہے ہیں انہیں نیچا نہیں دکھا رہے ‘مجھ سمیت سب کااحتساب ہونا چاہیے‘ آپ لوگوں نے فیصلے کو آج سچ مان لیا‘ہمارامتحان پاس ہوگیا ‘اب آپ لوگوں کی باری ہے کہ سچ کا ساتھ دینا ہے یا نہیں ‘پہلے کہا گیا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، کیا اب غلطیاں ختم ہوگئیں؟ ہم پیمرا کی درخواست زیر التو رکھیں گے، کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا‘الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، ایک آئینی ادارہ اتنا ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہے؟ ، مٹی پاؤ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا۔جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پرمشتمل تین رکنی بینچ نے ٹی ایل پی کی جانب سے 2017 میں فیض آباد انٹر چینج پر دیے گئے دھرنا کے خلاف ازخود نوٹس کیس کے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کئے گئے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی وزارت داخلہ، وزارت دفاع، وزارت داخلہ، پیمرا، آئی بی ،پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور شیخ رشید،اعجاز الحق وغیرہ کی نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کی تو وزارت دفاع ،انٹیلی جنس بیورو،پیمرا‘تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن کی جانب سے نظر ثانی کی درخواستوں کی پیروی نہ کرنے اور اپنی اپنی درخواستیں واپس لینے کی اجازت دینے کی استدعا کی گئی تو فاضل چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آج نو نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کر رہے ہیں، پہلے سارے درخواست گزاروں کی حاضری لگائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اس مقدمہ میں نظر ثانی کی درخواستوں کا دفاع نہیں کرنا چاہتا ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب کیوں واپس لینا چاہتے ہیں، پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں اس لیے اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں؟جس پر انہوںنے کہاکہ جب نظر ثانی کی درخواست دائر کی گئی تھی اس وقت حکومت اور تھی،اب اور ہے ،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست واپس لینے سے متعلق تحریری درخواست کیوں دائر نہیں کی ہے؟، جس پر انہوںنے کہاکہ میں اپنا بیان دے رہا ہوں، دورن سماعت پیمرا کے وکیل حافظ احسان نے بھی کہا کہ الیکشن کمیشن بھی پنی نظر ثانی کی درخواست واپس لے رہا ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس کی ہدایات پر واپس لے رہے ہیں‘بیانات دیے جاتے ہیں کہ ہمیں سنا ہی نہیں گیا ہے ‘اداروں کو تباہ نہ کریں اور عوامی اداروں کے بارے میں ایسا نہ کریں‘پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی بھی اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست واپس لینا چاہتی ہے،تو فاضل چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں تیسری مرتبہ شرعی اصول کے تحت پوچھ رہا ہوں، کیا آپ واقعی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں؟ تو انہوںنے کہا کہ میں اپنے موکل کی ہدایات کی روشنی میں کہہ رہا ہوں ،کہ ہم اس فیصلے کے خلاف کوئی دفاع نہیں کرنا چاہتے ہیں‘دوران سماعت اعجاز الحق کے وکیل نے روسٹرم پر آکر موقف اختیار کیا کہ ہمارا اس دھرنے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا،میرے موکل کے خلاف کچھ آبزرویشنز دی گئی تھیں ،انہیں ختم کرنے کی استدعا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تو آئی ایس آئی کی رپورٹ کی روشنی میں آبزرویشن دی تھی، آپ تحریری طور پر لکھ کر دیں کہ آپ کے موکل نے فیض آباد دھرنے کو سپورٹ نہیں کیا تھا ،جس پر وکیل نے کہا کہ اعجاز الحق کے حوالے سے جو آبزرویشنز دی گئیں وہ درست نہیں ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اعتراض فیصلے پر نہیں بلکہ رپورٹ پر ہے، ہم نے فیصلے میں اعجاز الحق کا ذکر آئی ایس آئی رپورٹ کی روشنی میں کیا ہے، آپ بیان حلفی دے دیں کہ وہ رپورٹ غلط تھی، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا بہت بڑامقام ہے، آپ نے ایک قانون کے بارے میں کہا تھا کہ یہ مصنوعی قانون ہے،جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اب طویل وقت گزر چکا ہے، اب حکومت اور الیکشن کمیشن کافی دانشمند ہو گئے ہیں، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ نے نظرثانی درخواست پہلے فکس کرنے کی بات کیوں نہیں کی تھی، درخواستیں واپس کیوں لی جا رہی ہیں؟ ہمیں بتائیں، سچ بولنے سے ہر کوئی کترا کیوں رہا ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ فیض آباد دھرنا کیس کس فیصلہ ایک لینڈ مارک (تاریخ ساز)فیصلہ ہے، فاضل جج نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ مرکزی فیصلے پر کیا عمل ہواہے ؟جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے دھرناکیس کے فیصلے میں پوری داستان لکھی تھی،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ خود اپنے ادارے کو بھی دیکھیں کہ نظر ثانی کی درخواستیں اتنا عرصہ کیوں فکس نہیں ہوئیں تو فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم خود احتسابی کا سلسلہ اپنے ادارے سے ہی شروع کرنا چاہتے ہیں، فاضل چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ایک آئینی ادارہ اتنی ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہے؟ کیا یہ کہہ رہے ہیں کہ مٹی پاؤ بعد میں دیکھیں گے؟ انہوںنے کہاکہ 12مئی کو 55 لوگ قتل ہوئے تھے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ مٹی پاؤ؟ بتائیں ناں؟ کیوں مٹی ڈالیں؟ کیا کسی نئے واقعہ کے وقوع پزیر ہونے کا انتظار کریں؟ انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ خود بھی قابل احتساب ادارہ ہے اور ہم عوام کے سامنے جوابدہ ہیں، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، آپ کہہ رہے ہیں کہ حکم آیا تھا اور ہم نے نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی تھی، آپ لکھیں کہ کس نے حکم جاری کیا تھا؟ وفاقی حکومت بتائے کہ یہ درخواستیں واپس کر دیں، لیکن مرکزی فیصلے عملدرآمد کا کیا ہوگا؟فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے خادم رضوی مرحوم نے ہمارے فیصلے کو قبول کرلیا تھا ،اسی لئے ان کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست دائر نہیں کی گئی تھی ؟ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لیکن بڑا وہ ہے جو غلطیوں کو تسلیم کرے، غلطی مجھ سے بھی ہوسکتی ہے مگر پیمرا اور الیکشن کمیشن کیوں اپ سیٹ(پریشان ) ہے، کیا الیکشن کمیشن نے آزادانہ نظر ثانی دائر کی تھی ؟یا کسی کے کہنے پر دائر کی تھی؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں حکم اوپر سے آتا ہے اوراوپر سے حکم آنے کا مطلب نعوذباللہ ، اللہ نہیں ہے، اوپر سے حکم آنے کا مطلب کہیں اور سے آیا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل بتائیں کہ کس سے ڈر رہے ہیں‘ آج فیصلہ درست مان رہے ہیں لیکن نظر ثانی درخواستیں کیوں دائر کی گئی تھیں؟وہ صاحب کدھر ہیں جو کینیڈا سے جمہوریت کے لیے آئے تھے‘بتائیں کہ تحریک لبیک کے فنڈز کے ذرائع سے متعلق آپ نے عدالتی فیصلے پر کیا عملدرآمد کیا ہے، ہم جواب دیں گے، آپ نے پاکستان کے قانون کو کاسمیٹک کہا تھا، سیاسی جماعتوں کے ذرائع آمدن کے بارے میں کیا عملدرآمد ہواہے؟ تفصیلات پیش کریں،جس پرالیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہم تحریری جواب دیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا دھرنا مظاہرین کے درمیان کوئی معاہدہ بھی ہوا تھا؟ جس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ جی بالکل معاہدہ ہوا تھا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ معاہدہ ابھی ہے کہ نہیں؟ کیا دھرنا معاہدہ ریکارڈ کا حصہ ہے؟ فیض آباد دھرنے کا معاہدہ ریکارڈ پر لے کر آئیں۔