• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نماز کے دوران سائیڈ کی جیب میں یا پسِ پشت ’’کی چین‘‘ کے ساتھ باتصویر آئی ڈی کارڈ کا حکم

تفہیم المسائل

سوال: اگر باجماعت نماز میں کسی مقتدی کے گلے میں یا کمر پر اس کے ادارے کا آئی ڈی کارڈ ہو ، جس میں اُس کی تصویر بھی نمایاں ہو،جیساکہ شناختی کارڈ پر ہوتی ہے، تو کیا نماز ہوجائے گی، نیز کیا اس کی وجہ سے امام اور باقی مقتدیوں کی نماز پر بھی کوئی فرق پڑے گا؟( علامہ مدثر حسین، یو ایس اے )

جواب: جس چیز پر کسی جان دار کی واضح اورنمایاں تصویر ہو،چاہے سامنے ہو ،پیچھے ہو یا دائیں بائیں ،اُسے پہن کر نماز پڑھنا مکروہ ہے ،البتہ اگر تصویر پوشیدہ ہو یا اس قدر چھوٹی اور غیر واضح ہو کہ اسے زمین پر رکھ کر کھڑے ہوکر دیکھیں تو اعضا ء کی تفصیل واضح نہ ہو ، تونماز بلاکراہت جائز ہے۔

قومی شناختی کارڈ یا کسی ادارے کے کارڈ پر موجود تصویر کا عکس اتنا واضح نہیں ہوتا کہ جسے پہن کر نماز کی ادائیگی مکروہ قرار پائے، لیکن پھر بھی بہتر یہی ہے کہ نماز کی ادائیگی سے قبل اس کارڈ کو قمیص یا جیب کے اندر رکھ لیں، علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ترجمہ:’’جہاں نمازی کے آگے یا اس کے سر کے اوپر(یعنی چھت پر)یااس کے دائیں یا بائیں جانب ( جاندار کی تصویر بنی) ہو ، یا نمازی کے کپڑے پر تصویریں ہوں ،تو نماز مکروہِ تحریمی ہے۔ (ایسا کپڑا جس پر تصویریں بنی ہوں ،تو) اُسے بچھا کر اُس پر نماز پڑھنے (کی کراہت کے بارے ) میں دو روایتیں ہیں اور صحیح یہی ہے کہ اُس پر نماز مکروہ نہیں ہے، بشرطیکہ سجدہ تصویر وں پر نہ کرے، یہ مسئلہ اس سے متعلق ہے کہ تصویر اتنی بڑی ہو کہ دیکھنے والے کو بلا تکلف نظر آسکے ۔۔۔۔ آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’تصویر کے حوالے سے نماز کی شدید ترین کراہت کی ترتیب اس طرح ہے، سب سے زیادہ کراہت اس میں ہے کہ تصویر نمازی کے آگے ہو ،پھر اس کے سرکے اوپر ہو، پھراس کے دائیں جانب ہو ،پھراس کے بائیں جانب ہو، پھر اس کے پیچھے ہو ، ’’کافی‘‘ میں اسی طرح ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد1، ص:107)‘‘۔

تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے: ترجمہ:’’اگر تصویر نمازی کے قدموں کے نیچے یا اس کے بیٹھنے کی جگہ ہو،نماز مکروہ نہیں ہوگی ،کیونکہ موضع اہانت میں ہے یا وہ تصویر نمازی کے ہاتھ میں یا اس کے بدن میں ہو، کیونکہ وہ تصویر اس کے کپڑوں کے ساتھ چھپ جاتی ہے یا وہ اس کی انگوٹھی پر غیر واضح نقش کے ساتھ ہو ، ’’البحرالرائق ‘‘ میں ہے: اس سے مستفاد ہوتا ہے ، جو تصویر واضح ہو ،وہ مکروہ ہے، لہٰذا جو تصویر بٹوے، تھیلی یا کسی دوسرے کپڑے میں پوشیدہ ہو ،وہ مکروہ نہیں ہے یا وہ تصویر اتنی چھوٹی ہو کہ اسے زمین پر رکھ کر کھڑے ہوکر دیکھیں تو اعضاء کی تفصیل دکھائی نہ دے ‘‘۔

علامہ ابن عابدین شامی ’’ لَا تَتَبَیَّنُ‘‘کی شرح میں لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ یہ معیار ’’قُہستانی‘‘ میں بیان کردہ معیار کی نسبت زیادہ مضبوط ہے، چنانچہ انھوں نے کہا: وہ ایسی حالت میں ہوکہ پوری توجہ سے دیکھے بغیر دیکھنے والے پر ظاہر نہ ہوتی ہو، جیسا کہ ’’کرمانی‘‘ میں ہے یا وہ دور سے(دیکھنے والے پر) ظاہر نہ ہوتی ہو ،جیساکہ ’’المحیط‘‘ میں ہے ، پھر کہا: لیکن خزانہ میں ہے: اگر تصویر پرندے جتنی ہوتو مکروہ ہے ،اگر پرندے سے چھوٹی ہو تو مکروہ نہیں ہے،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار جلد 2،ص:359، 360)‘‘۔

علامہ ابن عابدین شامی اس کی شرح میں لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اس طرح کہ اس نے نماز پڑھی اور اس کے پاس بٹوا یا دراہم ودنانیر (سے بھری) تھیلی تھی، جن میں چھوٹی تصاویر تھیں، پس ان کے پوشیدہ ہونے کی وجہ سے نماز مکروہ نہیں ،’’البحر‘‘،اس کا مقتضا یہ ہے کہ اگروہ ظاہر ہوں تو نماز مکروہ ہوگی ،جبکہ چھوٹی تصاویر کے ہوتے ہوئے نماز مکروہ نہیں ہوتی ،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار جلد 2،ص:359، 360)‘‘۔

اس مسئلے کا امام کی نماز کی صحت سے کوئی تعلق نہیں ہے، امام کے سامنے توکوئی تصویر نہیں ہے ،جو اُس کی نماز کے لیے کراہت کا سبب بنے اوراگر بالفرض کسی مقتدی کی نماز میں کسی سبب سے کوئی کراہت آجائے تواس کابھی امام کی نماز کی صحت پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا ، اسی طرح ایک مقتدی کی نماز کی کراہت کا دوسرے مقتدیوں کی نماز کی صحت پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا اور دفتر کے شناختی کارڈ کی تصویر جوچابی کی لڑی (Key chain)کے ساتھ لٹک رہی ہوتو یہ زیادہ سے زیادہ کراہتِ تنزیہی کا سبب ہوگی۔ 

آج کل سیکورٹی چیک کے لیے چونکہ دفتروں یا اداروں کے ملازمین کے لیے دفتری شناختی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسنس رکھنا ضروری قرار دے دیا گیا ہے اور اداروں یاحکومتی قوانین کی پابندی لازمی ہے ،کیونکہ یہ عوامی مفاد میں ہے، اس لیے یہ عمومِ بلویٰ ہے۔ لہٰذا وقتاً فوقتاً اَئمۂ کرام کو یہ مسائل عوام کو بتاتے رہنا چاہیے اورکسی سے بے احتیاطی ہوجائے تو انھیں شدت نہیں برتنی چاہیے، مزید یہ کہ آئی ڈی کارڈ کی تصویر قریب سے دیکھنے سے قابلِ شناخت ہوتی ہے ،دور سے اتنی نمایاں نہیں ہوتی۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر کوئی مقتدی اپنے آئی ڈی کارڈ کے ساتھ نماز پڑھنے کھڑا ہوگیا تو کراہت کے بغیر نماز ہوجائے گی ، لیکن بہتر صورت یہی ہے کہ جب نماز کی تیاری کرے ،تو کارڈ اتار کر جیب میں رکھ لے یا قمیص کے اندر کرلے ،موبائل بند کردے یا کم ازکم سائیلنٹ کردے، جلدی یا بے دھیانی میں اگر کبھی کارڈ قمیص کے اوپر رہ جائے، تو دورانِ نماز بھی ایک ہاتھ سے اتار کر جیب میں رکھ سکتے ہیں یا قمیص کے اندر کرسکتے ہیں۔

اقراء سے مزید