کراچی (نیوز ڈیسک) اسرائیل میں ہونے والے حماس کے اب تک کی سب سے بڑی کارروائی قرار دیے جانے والے حملے کو روکنے میں اسرائیلی انٹیلی جنس سروس بری طرح ناکام ہو گئیں اور اسرائیلی میڈیا پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔
اسرائیلی حکام سے جب سوال کیا گیا کہ اس قدر بیشمار وسائل کے ہوتے ہوئے آپ کو حملے کی پیشگی اطلاع نہیں ملی تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ ایسا بھی کچھ ہو سکتا ہے۔
گزشتہ روز درجنوں فلسطینی بندوق بردار اسرائیل اور غزہ کے درمیان قلعہ نما سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے جبکہ غزہ سے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ بھی فائر کیے گئے۔
اسرائیل کی داخلی انٹیلی جنس سروس ’’شن بیت‘‘ اور بیرونی انٹیلی جنس ایجنسی موساد اور اسرائیلی فوج کے تمام تر وسائل کے باوجود دنیا کیلئے حماس کی یہ کارروائی اچانک اور حیران کن ثابت ہوئی ہے کیونکہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔
اور اگر یہ مان بھی لیں کہ انہیں کسی بڑے حملے کا اندازہ تھا تو وہ اسے روکنے میں ناکام ہوگئے۔
اسرائیل کے پاس مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ وسیع اور سب سے زیادہ فنڈنگ کی حامل انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں۔ اسرائیلی ایجنسیوں کے مخبر ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں اور وہ فلسطینی گروپس کے ساتھ لبنان، شام اور دیگر مقامات پر بھی موجود ہیں۔
انہی مخبروں کو استعمال کرتے ہوئے ماضی میں اسرائیل نے کئی فلسطینی رہنمائوں کو قتل کیا ہے۔ بعض اوقات یہ حملے ڈرونز کے ذریعے اس وقت کیے جاتے ہیں جب مخبروں کی جانب سے مطلوب فلسطینی کی گاڑی پر جی پی ایس ٹریکر لگا دیا جاتا ہے۔
سیکورٹی حصار کی بات کی جائے تو غزہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدہ سرحدی باڑ پر کیمرے، گراؤنڈ موشن سینسرز اور فوج کا باقاعدہ گشت رہتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ خاردار تاروں والی باڑ بالکل اس طرح کی دراندازی کو روکنے کیلئے تھی جو موجودہ حملے کیلئے کی گئی ہے۔
حماس کے عسکریت پسندوں نے اس باڑ کو بلڈوز کیا اور اسرائیلی حدود میں داخل ہوگئے۔ کچھ عسکریت پسند سمندر سے پیرا گلائیڈرز کے ذریعے بھی داخل ہوئے۔
حماس کی جانب سے غیر معمولی انداز سے پیچیدہ پلاننگ جس میں مربوط انداز سے سیکورٹی بریچ کرنا اور پھر سیکڑوں راکٹ فائر کرنا یقینی طور پر اسرائیلی انٹیلی جنس کی ناکامی ہے کیونکہ یہ سب کچھ اس کی ناک کے نیچے ہوا ہے۔
تعجب نہیں کہ اسرائیلی میڈیا اس انٹیلی جنس ناکامی پر اپنے فوجی اور سیاسی رہنماؤں سے سوالات کر رہا ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوسکتا ہے۔
حیران کن بات ہے کہ 50؍ سال قبل بھی اکتوبر (1973ء کی کپور وار) کے مہینے کے دوران اس وقت اسرائیل پر اچانک حملہ کیا گیا تھا جب اسرائیلی اپنا مذہبی تہوار یومِ کپور منا رہے تھے۔ اس ناکامی پر اسرائیل میں ایک بڑی انکوائری شروع ہوئی ہے جس میں ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا۔
لیکن اس وقت اسرائیل کی ترجیحات میں اہم ترین کام سرحدی علاقہ جات میں اُن رہائشی مقامات سے عسکریت پسندوں کا کنٹرول چھڑانا ہے جن پر اب حماس کا قبضہ ہے۔
ممکن ہے کہ اپنے یرغمال شہریوں کی آزادی کیلئے اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑے۔
اس کے علاوہ، اسرائیل اُن مقامات کو تباہ کرنے کی کوشش بھی کرے گا جہاں سے اسرائیل پر راکٹ داغے جا رہے ہیں تاہم اس میں شاید اسرائیل کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ حماس کے مسلح افراد کسی ایک خاص مقام سے راکٹ فائر نہیں کرتے۔
اس کے ساتھ ہی ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر حماس نے مدد کیلئے آواز دی اسرائیل اسے کیسے روکے گا کیونکہ لبنان کے ساتھ اس کی شمالی سرحد پر حزب اللّٰہ کے جنگجو بھی اس لڑائی میں کود سکتے ہیں۔