ایک رات کھانے کے وقت میری والدہ نے سالن کے ساتھ جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھ دی۔ میں والد کے رَدِعمل کا انتظار کرتا رہا کہ شاید وہ غصّے کا اظہار کریں گے لیکن اُنہوں نے انتہائی سُکون سے کھانا کھایا اور ساتھ ہی مجھ سے پُوچھا کہ آج سکول میں میرا دن کیسا گزرا؟ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا لیکن اُسی دوران میری والدہ نے روٹی جل جانے کی معذرت کی تومیرے والد نے کہا کوئی بات نہیں، بلکہ مجھے تو یہ روٹی کھا کر مزا آیا۔
اُس رات جب میں اپنے والد کو شب بخیر کہنے اُن کے کمرے میں گیا تو اُن سے اِس بارے میں پوچھ ہی لیا کہ ، "کیا واقعی آپ کو جَلی ہوئی روٹی کھا کر مزا آیا ؟ انہوں نے پیار سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا، "ایک جلی ہوئی روٹی کچھ نقصان نہیں پہنچاتی، مگر تلخ رَدِ عمل اور بد زبانی انسان کے جذبات کو مجروح کر دیتے ہیں۔ یاد رکھنا میرے بچے یہ دُنیا بے شمار نا پسندیدہ چیزوں اور لوگوں سے بھری پڑی ہے۔
میں بھی کوئی بہترین یا مکمل انسان نہیں ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے اِرد گِرد کے لوگوں سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ ایک دُوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرنا ، رشتوں کو بخوبی نبھانا ہی تعلقات میں بہتری کا سبب بنتا ہے۔ ہماری زندگی اتنی مختصر ہے کہ اِس میں معذرت اور پچھتاووں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
(انتخاب : مولانا ابُوالکلام آزاد)