کراچی(ٹی وی رپورٹ)سینئر رہنما پیپلز پارٹی خورشید شاہ نے کہا ہے کہ بیک ڈور کی طاقت کو بند کردو اور سیدھے عوامی راستے سے آؤ، سینئر رہنما ن لیگ طلال چوہدری نے کہا کہ نواز شریف نے کوئی ڈیل یا بیک ڈور معاہدہ کرنا ہوتا تو2018 میں سختیاں نہ جھیلتے، سینئر صحافی عثمان سمیع الدین نے کہا کہ پاکستان کی پلاننگ اچھی نہیں تھی بچ کا غلط اندازہ لگایا۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان“ میں میزبان شہزاد اقبال سےبات چیت کررہے تھے۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر رہنما پیپلز پارٹی خورشید شاہ نے مزید کہا کہ ہمیں صاف اور شفاف الیکشن چاہئیں ۔ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ہمیں تو خوشی ہے کہ نواز شریف پاکستان آرہے ہیں۔یہ احساس کہیں نہ ہو کہ یہ الیکشن پری پلان ہے اور بیک ڈور سے کوئی طے شدہ پروگرام ہے۔ووٹ کو عزت دو کا جو نیا نعرہ ہے وہ چیلنج ہوجائے۔ ہم میاں صاحب کی بھلائی کے لئے کہہ رہے ہیں۔ جس طریقے سے ن لیگ کا نعرہ اور بیانیہ ہے وہ چیلنج ہوجائے گا۔مخالفین ان کے خلاف بیانیہ ضرور بنائیں گے اور یہ ملک کے لئے بھی اچھا نہیں ہے پارلیمنٹ کے لئے بھی اچھا نہیں ہے ۔ مسلم لیگ نے کافی تکالیف دیکھیں ان کو احساس ہونا چاہئے۔ عمران خان کو بھی ریڈ کارپٹ دیا گیا بڑی عزت دی گئی لیکن بعد میں دیکھا کیا ہوا۔ کل ان کو یہ نہ کہنا پڑے کہ ہمارے ساتھ یہ کیا ہوگیا۔ عوام کو کون پیغام پہنچا رہا ہے کہ حکومت تو ن لیگ کی آرہی ہے۔ بیک ڈور کی طاقت کو بند کردو اور سیدھے عوامی راستے سے آؤ اور پاکستان، جمہوریت، پارلیمنٹ، ادارے بچاؤ۔ ملک کی معیشت ٹھیک کرو ملک کو بہتر کرو۔ اس طریقے سے ہم کب تک بیک ڈور سے آتے جائیں گے نکلتے جائیں گے۔ شہباز شریف کو کہنا فضول ہے۔ نواز شریف کو کہہ رہا ہوں کہ کیا کررہے ہیں پھر غلطی کرنا چاہ رہے ہیں۔ خود کو اتنا نمایاں نہ کرو کہ کل کو لوگ کہیں کہ کسی کے کندھے پر چڑھ کر آرہے ہو۔ جو کسی کے کندھے پر چڑھ کر آئیں گے تو ان میں فیصلہ کرنے کی کیا طاقت ہوگی۔ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بھی مجبور ہوں گے۔ ہم کبھی بیک ڈور سے نہیں آئے ہم جمہوری لوگ ہیں۔ بلدیاتی سطح کے معاملات کو پارلیمنٹ کی سطح کے معاملات سے نہ جوڑیں۔ حقیقت کو دیکھتے ہوئے کل بیان دیا تھا۔ کیوں ہم پاکستان کی آئندہ نسلوں کو مشکل میں ڈال رہے ہیں۔ پہلی بار سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا ہے۔ نواز شریف پورے ملک میں خطاب کریں لیکن طریقہ ہونا چاہئے۔ یہ خطرناک ٹریپ ہے جس میں ن لیگ پھنس رہی ہے۔ کتنی زندگی ہے چھوٹی سے زندگی کیلئے اپنی زندگی پر داغ لگوا رہے ہیں آپ کو کوئی سمجھانے والا نہیں ہے۔ آپ میں اور عمران خان میں کیا فرق ہوا آپ بھی تو ویسے ہی آرہے ہیں پھر کیوں عمران پر تنقید کرتے ہیں۔ سینئر رہنما ن لیگ طلال چوہدری نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایک جیسی بہت سزائیں ہوئی ہیں نواز شریف کی بھی ایسی ہی ایک سزا ہے۔ نواز شریف کبھی بھی کسی این آراو پر یقین نہیں رکھتے۔ پچھلے چار الیکشن میں سے تین انتخابات میں نواز شریف کو باہر رکھا گیا ہے۔ اگر نواز شریف نے کوئی ڈیل یا بیک ڈور معاہدہ کرنا ہوتا تو 2018ء میں یہ سختیاں نہ جھیلتے۔ 2017ء میں تاحیات نا اہل نہ ہوتے ان کے ساتھی بھی مشکلات سے نہ گزرتے۔ نواز شریف نے90ء میں ہی اس بات کا سبق پڑھ لیا تھا اسی لئے انہو ں نے میثاق جمہوریت کیا تھا۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی مقابلہ نہیں کرسکتی وہ صرف ایک الزام دے رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ لے کر آرہی ہے۔ خورشید شاہ دھیمے لہجے میں غلط الزامات لگا رہے ہیں۔ پنجاب جو کہ انتخابات کا سب سے بڑا میدان ہے وہاں پیپلز پارٹی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ 2018ء میں بھی پنجاب میں ن لیگ کی سب سے زیادہ سیٹیں تھیں۔ نواز شریف کو نا اہل کرکے اور آر ٹی ایس بٹھا کر عمران خان کو اقتدار پر بٹھایا گیا۔ نواز شریف اور چیئرمین پی ٹی آئی کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ نواز شریف کسی کے کہنے پر اپنا بیانیہ نہیں بناتے اور بیانئے کو اپنی ذات اور پارٹی کے گرد بھی نہیں گھماتے۔ پاکستان کے لوگوں کے مسائل کے گرد نواز شریف کا بیانیہ گھومتا ہے۔ وہ صرف بیانیہ نہیں دیں گے وہ قابل عمل پلان بھی دیں گے۔ جو کہا ہے وہ کرکے دکھایا ہے وہ عمر کے اس حصے میں غلط بات نہیں کرے گا قابل عمل بات کرے گا۔ سینئرایڈیٹر کرک انفو عثمان سمیع الدین نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی پلاننگ اچھی نہیں تھی انہوں نے پچ کا غلط اندازہ لگایا۔اننگ کے آغاز سے اندازہ ہورہا تھا کہ پاکستان کاپلان یہ تھا کہ ہم فی اوور پانچ کی فیصد سے آگے جائیں گے۔155 کے بعد36 رنز پر8 وکٹیں گنوائی ہیں ۔انڈیا کی اٹیک بہت بہتر ہے ان کی skills بھی بہتر ہیں۔ جب کوئی چیز8-0 ہوتی ہے تو وہ rivalry نہیں ہوتی۔ پچھلے آٹھ سال میں کسی کو شک نہیں ہے کہ انڈیا کہ ٹیم پاکستان کی ٹیم سے بہت بہتر رہی ہے۔ پروگرام کے آغاز میں میزبان شہزاد اقبال نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ طبی وجوہات پر چار ہفتے کی ضمانت لے کر لندن جانے والے نواز شریف کی چار سال بعد وطن واپسی میں اب صرف چھ روز رہ گئے ہیں۔ نواز شریف کی الیکشن سے پہلے21 اکتوبر کو وطن واپسی سے ن لیگ نے کئی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ ن لیگ کی جانب سے مینار پاکستان پر جلسے کو کامیاب بنانے کی تیاریاں تیزی سے جاری ہیں۔ ن لیگی رہنما نواز شریف کے استقبال کو پاکستانی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا ایونٹ بنانے کی یقین دہانی کرارہے ہیں۔ آج لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے مسلم لیگ ن کو گریٹر اقبال پارک میں21 اکتوبر کو جلسہ کرنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ مگر ساتھ ہی اس جلسے کیلئے مسلم لیگ ن کو شرائط و ضوابط بھی بتا دیئے ہیں۔ جس میں آئینی اداروں، افواج پاکستان اور عدلیہ کے خلاف تقاریروں اور کسی بھی قسم کے متنازع نعروں سے باز رہنے کی شرط بھی شامل کی گئی ہے۔ ن لیگ کو مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت تو مل گئی ہے مگر نواز شریف واپسی پر گرفتاری سے کیسے بچیں گے اس حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ نواز شریف العزیزیہ اور ایون فیلڈ کیس میں اشتہاری ملزم ہیں اور العزیزیہ کیس میں سات سال کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ابھی تک ن لیگ کی قانونی ٹیم نے نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کیلئے عدالت سے رجوع نہیں کیا ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ ن لیگ واپسی سے دو روز پہلے حفاظتی ضمانت کیلئے عدالت سے رجوع کرے گی۔ پیپلز پارٹی نے نواز شریف کی آمد پر کانٹے بچھانے کی تیاری شروع کردی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان رومانس کے خاتمے کے بعد اب پیپلز پارٹی کی جانب سے نواز شریف کو یاد دلایا جارہا ہے کہ وہ ایک سزا یافتہ مجرم ہیں نواز شریف کو الیکشن لڑنے سے پہلے سزا کاٹنی ہوگی۔ بعض پارٹی رہنما نواز شریف کو ملنے والے پروٹوکول پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔