کراچی (ٹی وی رپورٹ) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ یقین نہیں کہ جنوری کے آخری ہفتے میں الیکشن ہونگے، آگے جانے کا راستہ کھلنا چاہئے، فائز عیسیٰ سے قوم کو بڑی امیدیں، ایوان صدر میں نہ ہوتا تو جیل میں ہوتا، ن لیگ جس بیانیے کی تلاش میں تھی وہ عوام نے نواز شریف کے ہاتھ میں تھما دیا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کو پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے پر کریڈٹ دیتا ہوں، بینظیر حکومت نے جیلوں میں تشدد کا ماحول بدلا، عمران خان اب بھی میرے لیڈر ہیں، اس وقت ملک کو جوڑنا ضروری ہے، عدلیہ پر عوام کو بڑا بھروسہ ہے، چیف جسٹس شفاف انداز میں بنچز بنا رہے ہیں، الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 57 میں ترمیم آئین کیخلاف ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس انہوں نے نہیں بھیجا تھا، وزیراعظم ہاؤس سے آیا تھا اور بعد میں سابق وزیراعظم نے بھی کہا تھا کہ وہ ریفرنس بھیجنا نہیں چاہتے تھے، ملک کے مستقبل کیلئے ضروری ہے کہ صاف شفاف اور قابل اعتبار الیکشن ہوں، پی ٹی آئی چیئرمین کی مقبولیت کمی نہیں اضافہ ہو رہا ہے، تمام سیاسی جماعتوں کیلئے وقت پر انتخابات کا انعقاد چاہتا ہوں، ہمیشہ سے توڑ پھوڑ کا مخالف ہوں،پنجاب اور کےپی میں انتخابات کیلئےالیکشن کمشنر کو بلایا لیکن وہ نہ آئے،پنجاب اور کےپی میں انتخابات کیلئےخط کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا،چیئرمین پی ٹی آئی ایک محب وطن پاکستانی ہیں،چیئرمین پی ٹی آئی بطوردوست اورہمدرد مجھ پر نظررکھتے ہیں، میں نےذاتی طورپر چیئرمین پی ٹی آئی کومالیاتی اُمور میں ایماندارپایا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف آج بھی ان کے لیڈر ہیں۔ اس سوال پر کہ آپکے عہدے کی مدت پوری ہوچکی ہے، آپ نے عہدہ کیوں نہیں چھوڑا؟ صدر عارف علوی نے کہا کہ آئین کہتا ہے جب تک اسمبلیاں دوسرے صدر کا انتخاب نہیں کرلیتیں صدر continue کریگا۔ اس سوال پر کہ آپ پہلے چوتھے صدر ہیں جنہوں نے اپنی مدت پوری کی لیکن وزیراعظم کی مدت کبھی پوری نہیں ہوتی، اسکی کیا وجہ ہے؟ صدر علوی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں پارلیمانی نظام میں اس بات کا امکان رہتا ہے، آپ اٹلی کو دیکھ لیں، ہر سال ڈیڑھ سال کے اندر پارلیمانی نظام کے اندر استعفیٰ دیتے ہیں الیکشن دوبارہ ہوتے ہیں، لیکن اگر ایک آرٹیفشل انداز سے کیں جائیں وہ کیفیت تو وہ ہمیشہ تکلیف دہ ہوتی ہے، اللّٰہ کا احسان ہے کہ پاکستان مشکلات سے گزرتے ہوئے جمہوریت کو چلارہا ہے۔
اس سوال پر کہ ستمبر 2023ء کو آپ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جو خط لکھا اس سے بہت سے تنازعات نے جنم لیا۔صدر عارف علوی نے کہا کہ اس خط میں فرق یہ ہے کہ ایک آرٹیکل تھا 57/1 الیکشن ایکٹ کے اندر، جب میں نے خط لکھا تھا تو میں نے اس خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ میں خبریں یہ پڑھ رہا ہوں کہ انتخابات نہیں ہوسکتے کیونکہ حالات اچھے نہیں ہیں، حکومت نے یہ پوائنٹ آف ویو اختیار کیا تھا تو میں نے اس میں لکھا تھا کہ جینز میڈیسن کے زمانے میں واشنگٹن پر حملہ ہوا، اس کو آگ لگادی، لوگ وہاں سے بھاگے اس کے باوجود الیکشن ہوا، میں نے پنجاب و خیبرپختونخوا کیلئے جو خط لکھا اس میں بھی بال ادھر ادھر جاتی رہی اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اس میں بھی میں نے الیکشن کمیشن کو مدعو کیا تھا کہ آئیں میرے ساتھ بیٹھ کر طے کرلیں، انہوں نے جواب دیا کہ ضرورت ہی نہیں ہے، اسکے بعد 57/1 کو تبدیل کیا گیا مگر میں نے اس پر دستخط نہیں کیے تھے، اتفاق ہے میں حج پر گیا ہوا تھا واپس آیا تو ترمیم ہوچکی تھی، اگر وہ ایوان صدر میں ہوتے حج پر نہیں گئے ہوتے تو کبھی الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم پر دستخط نہیں کرتے۔
ایک سوال پر صدر علوی نے کہا آئین کہتا ہے کہ الیکشن 90دن کے اندر ہو تو میں نے 6نومبر تجویز کی اس دن یا اس سے پہلے آپ الیکشن کروالیں، پھر میں نے quote کردیا کہ گورنمنٹ آف پاکستان کی لاء منسٹری مجھے کہہ رہی ہے آپ کا تو حق نہیں ہے، دوسرا مردم شماری پر پرابلم آرہے ہیں، دوسرا میں نے کہا کہ دونوں معاملات، کیونکہ میں جو پنجاب اور کے پی کے الیکشنز کے حوالے سے واقعی میں، کیونکہ کورٹس نے ultimately فیصلہ دینا تھا، دیا ظاہر ہے نہیں ہوا جو بھی بات تھی، میں نے بھی اس خط کے اندر یہی لکھا کہ آپ سپریم جیوڈیشری سے مشورہ کر کے اسے طے کرلیں، اب معاملہ سپریم جیوڈیشری کے پاس چلا گیا مگر جب ہی چلا جاتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو میں سراہتا ہوں کہ انہوں نے یہ کہا کہ تم نے یہ جلدی کیوں نہیں لگوایا، یہ معاملہ تو بہت ارجنٹ تھا، میں سمجھتا ہوں کہ جلدی لگنا چاہئے تھا۔
ایک سوال کے جواب میں صدر مملکت نے کہا کہ ن لیگ جس بیانیے کی تلاش میں تھی وہ عوام نے نوازشریف کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔ مینار پاکستان پر نوازشریف نے سیاسی جماعتوں اور اداروں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی، پھر اگلے دن سروے میں عوام کی اکثریت 70فیصد نے کہہ دیا کہ وہ چیئرمین پی ٹی آئی سے محاذ آرائی کے خاتمے اور تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی حمایت کرتے ہیں۔
حامد میر کے اس سوال پر کہ آپ اتفاق کرتے ہیں کہ سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ دینے کا مطالبہ جائز ہے؟ صدر عارف علوی نے کہا کہ سب ہی کررہے ہیں، میں آپ کے سامنے شفاف بات نہ کروں تو غلطی ہوگی، اگر میرے اوپر لوگ یہ کہیں کہ پی ٹی آئی سے آیا تھا اس لیے پی ٹی آئی کی بات کررہا ہے میں نہیں کررہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے مستقبل کیلئے یہ ضروری ہے کہ صاف و شفاف انتخابات ہوں۔صدر عارف علوی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ میری تحریک انصاف سے وابستگی رہی ہے اور اس وابستگی کی بنیاد یہ تھی کہ ہم لوگوں کیلئے انصاف تلاش کرینگے، لوگوں کیلئے جمہوریت کے پابند ہیں اور ماڈرن اسلامک ویلفیئر اسٹیٹ کی طرف ہم جستجو کریں گے، میں نے عمران خان صاحب کو مالی لحاظ سے ایماندار پایا۔ حامد میر کے اس سوال پر کہ وہ ایک incident جس کا ذکر کیا جاتا ہے کہ وہ جو ان کو گھڑی تحفے میں ملی تھی وہ ان کو بیچنی نہیں چاہئے تھی؟
صدر عارف علوی نے کہا کہ اس میں آپ میری بات نہیں سنئے، سابق وزیراعظم ہیں عباسی صاحب، ان کا پورا بیان پڑھ لیں، انہوں نے اپنے بارے میں کہا ہے۔ 9مئی کے حوالے سے صدر مملکت نے کہا کہ میں میں نے مذمت کی تھی بطور صدر پاکستان۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ایسا کام نہیں ہونا چاہئے جس میں توڑ پھوڑ ہو، میں تو ہمیشہ سے توڑ پھوڑ کے خلاف ہوں کہ نہیں ہونا چاہئے، 9مئی کے واقعات کی میں نے مذمت کی ، ساتھ ہی میں اب یہ کہتا ہوں کہ آگے جانے کا راستہ کھلنا چاہئے، میں عدالتوں کو سراہتا ہوں، میں چھ آٹھ مہینے پہلے کورٹس کو کہہ رہا تھا کہ کورٹ اگر یونٹی کے ساتھ کوئی بات کرے تو کورٹس کے اوپر لوگوں کو بڑا بھروسہ ہے، میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی کورٹ کو اور ان کے کام کو سراہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے یونٹی دکھائی، ساری کورٹ کو اکٹھا بٹھایا، انہوں نے چیزیں اوپن ہیئرنگ میں کیں، اب بھی انہوں نے جو بنچز بنانے کا کام شروع کیا ہے وہ بڑے شفاف انداز میں بنارہے ہیں، قوم کو ان سے بڑی امید ہے انشاء اللّٰہ وہ پورا اتریں گے۔