• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا ملک زرعی ہونے کیساتھ ایگرو بیسڈ صنعتی بھی ہے، خورشید شاہ

کراچی (نیوز ڈیسک) فاطمہ گروپ آف فرٹیلائزر کی جانب سے سرسبز گندم کنونشنز کے انعقادہ کا سلسلہ جاری ہے اس سلسلہ میں گذشتہ روز سکھر میں سرسبز گندم کنونشن کا انعقاد کیا گیا اس موقع پر پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید احمد شاہ مہمان خصوصی تھے۔ کنونشن میں ترقی پسند کاشتکاروں، کھاد ڈیلر اور زراعت سے وابستہ مختلف شعبہ ہائے دیگر سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ فاطمہ گروپ آف فرٹیلائزر نے ایک اہم موقع پر جب گندم کی کاشت ہو رہی ہے کاشتکاروں کی آگاہی کے لئے گندم کنونشن کا انعقاد کیا گیا گندم کے موسم میں گندم کی کاشت پر بات کی گئی ہے یہ انتہائی اہم قدم ہے۔ میں سیاستدان ہوں ہماری تقریر کا رخ بھی سیاسی ہوتا ہے۔ حکمرانوں نے پاکستان سے زیادتی کی ہے ہمارا ملک زرعی ہے ایگرو بیسڈ صنعتی ملک بھی ہے۔ تقریباً تمام صنعتوں کا تعلق زراعت سے ہے ہمارے ملک میں ریسرچ کا فقدان ہے۔ 25 سے 26 سال میں جس ملک کی آبادی میں تین گنا اضافہ ہو جائے اور زرعی پیداوار میں اضافہ نہ ہو تو زرعی اجناس امپورٹ کرنا پڑیں گی۔ انسانی ضروریات کی تمام اجناس ہم اگاتے ہیں۔ گندم، چاول، دالوں، کپاس کے بیج بنائیں، ریسرچ لائیں۔ بھارت کی اوسط گندم پیداوار 67 فی من ایکڑ ہے۔ ہمارے ملک میں پیداوار نہ بڑھنے کا زیادہ قصور حکمرانوں کا ہے۔ اگر حکومت یہ کہے کہ اگر ریسرچ کے اداروں نے کام نہ کیا تو ان کی خیر نہیں پھر دیکھیں ریسرچ میں کیسے کام ہوتا ہے۔ کھادوں کے ساتھ ساتھ زمین کی لیزر لیولننگ ضروری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اچھے بیج لے کر آئے ایک بیج انہوں نے سکرنڈ کو دیا دوسرا فیصل آباد کو دیا۔ فیصل آباد میں کام ہو رہا ہے مگر سکرنڈ بند پڑا ہے۔ یہ ہمارا المیہ ہے۔ ریسرچ پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے تجربے سے فی ایکڑ 72 من تک پیداوار حاصل کر چکے ہیں اور یہ وہ زمین تھی جو کلر زدہ تھی ۔ اگر میرے پاس اچھی زمین ہو تو میں 200 من فی ایکڑ تک پیداوار حاصل کر سکتا ہوں۔ 2010 اور 2011 میں پاکستان میں کپاس کی پیداوار ایک کروڑ 56 لاکھ گانٹھ تک تھی۔ آج 70 لاکھ گانٹھ تک پیداوار ہے۔ جبکہ یہ پیداوار کہیں زیادہ ہونا چاہئے تھی۔ کپاس کی کمی سے خوردنی تیل کی پیداوار بھی متاثر ہوئی۔ پانچ ہزار ڈالر کا نقصان ہم صرف کپاس کی کم پیداوار سے اٹھا رہے ہیں۔ ہم عقل کے اندھے ہیں۔ ایک بلین ڈالر کے لئے آئی ایم ایف کے قدموں پر اپنی ٹوپیاں رکھ رہے ہیں مگر زرعی پیداوار کو نہیں بڑھا رہے۔ ہم نے کسان کو کپاس کا ریٹ 4 ہزار روپے من اور پنجاب میں 35 سو روپے من دیا ۔ضرورت پیداوار بڑھانا ہے۔ 28 من فی ایکڑ کپاس اٹھانا شرمناک ہے۔ ہماری زمینیں پنجاب کی طرح نہیں ہیں ہماری زمینوں کی پی ایچ 9 تک پہنچی ہوئی ہے۔ زمین کا وہی علاج کریں جس کی اسے ضرورت ہے۔ کپاس اور گندم کی باقیات کو زمین میں مکس کریں جو ہماری زمین کو فائدہ دیں گی۔ زمین میں جن چیزوں کی کمی ہے وہ پوری کی جائے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے زراعت کو سپورٹ کرے۔ کپاس، گندم، چاول اور گنے کی بھر پور پیداوار حاصل کر لی جائے اور صرف 2 سال میں پاکستان کا قرضہ اتر جائے گا۔ پرائیویٹ سیکٹر کو بیج بنانا چاہئے جتنا مہنگا ہوگا لوگ خریدیں گے مگر بیج معیاری ہونا چاہئے۔ 11 مارچ میں کپاس کی کاشت سے میں نے 60 من فی ایکڑ پیداوار حاصل کی۔ اگر کاشتکاروں کو کپاس پر سبسڈی مل جائے تو دو سال میں ملک کا قرض اتار دیں گے۔

ملک بھر سے سے مزید