اسلام آباد (نمائندہ جنگ، نیوز ایجنسیاں) چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد عمل درآمد کیس میں حکومت کی جانب سے بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کا ماسٹر مائنڈ کون تھا، مینج کون کر رہا تھا؟ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترداف ہے، الیکشن کمیشن نے کہہ دیا تحریک لبیک کو 15لاکھ کی معمولی فنڈنگ ہوئی، یہ تنظیم ایک رات میں رجسٹر کیسے ہوئی؟ دھرنے کے مقاصد کچھ اور تھے، ابصار عالم نے جرات کی، چیئرمین پیمرا کہہ رہے ہیں نظرثانی کیسے دائر ہوئی، کوئی پراسرار کوقوتیں تھیں، ابصار عالم نے کہا ایک چینل بند کیا، جنرل فیض کی کال آئی چینل دوبارہ کھولو،جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ فوج کا ایک افسر پرتشدد کارروائی چاہتا تھا،جس پر ابصار عالم نے کہا جی بالکل ایسا ہی ہے، دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریماکس دیئے70سال سے اشرافیہ کا ملک پر قبضہ ہے، قانون ہاتھ میں لینے والوں کو سزا ملے گی تب ہی لوگ سبق سیکھیں گے، کیا لوگ کینیڈا سے یہاں آ کر دھرنا دیں گے تو کوئی پوچھے گا نہیں، کسی نے کینیڈین حکومت سے اسکی تحقیقات کیلئے کہا؟ اربوں کا نقصان، سرکار کو پروا نہیں؟ کینیڈا سے آنے والا پورا ملک اوپر نیچے کر کے چلا جاتا ہے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا سے متعلق فیض آباد دھرنا فیصلہ پڑھیں، کسی کو مارنا اور جلاؤ گھیراؤ کرنا اظہار رائے کی آزادی نہیں، کیا دو نجی ٹی وی چینلز کی اب بھی کینٹ ایریا میں پابندی ہے، سپریم کورٹ نے وزارت دفاع اور انٹیلی جنس بیورو(آئی بی) کی دھرنا نظر ثانی کیس کی درخواستیں خارج کر دیں، درخواستیں واپس لینے کی بنیاد خارج کی گئیں، فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس میں سپریم کورٹ نے حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو غیر قانونی قرار دیکر مسترد کر دیا اور اٹارنی جنرل کو جلد نیا انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی ہدایت بھی کی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت سے کچھ مہلت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت سے انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت اس معاملہ کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن بنانے کی سفارش کرینگے، عدالت نے انکی استدعا منظور کرتے ہوئے قرار دیا کہ امید کرتے ہیں کہ واضح قواعد وشرائط کے ساتھ ’’انکوائری کمیشن‘‘ قائم کیا جائیگا،دوران سماعت چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا کیخلاف سخت آبزرویشن دی۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت 15نومبر تک ملتوی کر دی ۔ فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےگزشتہ روز سماعت کا حکم نامہ بھی لکھوایا۔ جسکے مطابق وزارت دفاع اور آئی بی کی نظر ثانی درخواستیں واپس لینے کی بیناد پر خارج کی جاتی ہیں، پیمرا نے بھی نظر ثانی کی درخواست واپس لینے کی استدعا کی، پیمرا کے وکیل حافظ ایس اے رحمان نے کہا کہ انہیں سابق چیئرمین پیمرا کا جواب ابھی ملا ہے اور چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے کہا کہ ہم نے عمل درآمد رپورٹ جمع کرا دی ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے بیان حلفی جمع کرایا جس میں ایک انفرادی شخص اور انکے نامعلوم ماتحت اہلکاروں پر سنگین الزامات عائد کیے، ابصار عالم نے جس انفرادی شخص پر الزام لگایا وہ ہمارے سامنے پیش نہیں ہے، حکمنامے کے مطابق اگر وفاقی حکومت کمیشن تشکیل دیتا ہے تو ابصار عالم نے کہا کہ وہ پیش ہوکر بیان دینگے، ابصار عالم نے کہا کہ جس شخص پر الزام لگایا اگر وہ جرح کرے تو بھی کارروائی کا حصہ بنوں گا، حکومتی تین رکنی کمیٹی مؤثر نہیں ہے، عدالت نے پوچھا کیا حکومتی تین رکنی کمیٹی کسی کو طلب کر سکتی ہے لیکن ہمیں اسکا تسلی بخش جواب نہیں ملا۔عدالتی حکمنامے میں بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل نے کہا وہ انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دینے کی تجویز دینگے، اٹارنی جنرل کو کمیشن کے قیام کیلئے وفاقی حکومت کو تجویز دینے کیلئے وقت فراہم کرتے ہیں، حکومت اگر رضامند ہوئی تو کمیشن بنا کر نوٹیفکیشن پیش کرے، کمیشن کے ٹی او آرز بالکل واضح ہونے چاہئیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا وہ حکومت سے انکوائری کمیشن قائم کرنے کی سفارش کریں گے اور انہوں نے انکوائری کمیشن کے قیام کا نوٹیفیکیشن پیش کرنے کی مہلت مانگی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت فیصلہ تسلیم کرتی ہے اور عمل درآمد کیلئے تیار ہے۔ حافظ ایس اے رحمان وکیل پیمرا سے پوچھا کہ کسی عدالتی فیصلے کے حصے پر عمل ہوا، حافظ ایس اے رحمان نے کہا کہ وہ دلائل نہیں دینا چاہتے۔ حکم نامے کے مطابق ہم نے چیئرمین پیمرا سے پوچھا نظر ثانی دائر کرنے کا فیصلہ کس کا تھا، چیئرمین پیمرا نے متضاد جوابات دیے، پہلے کہا اتھارٹی نے نظر ثانی دائر کی پھر کہا زبانی اتھارٹی نے کہا تھا۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ دیکھ لیں۔ اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابصار عالم یہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمیں بتایا گیا وہ راستے میں ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ابصار عالم نے وزرات دفاع کے ملازمین پر سنجیدہ الزام لگائے ہیں اور کیا اب بھی آپ نظرثانی درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ابصار عالم کے الزامات درست ہیں تو یہ معاملہ وزرات دفاع سے متعلق ہے، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب قائم ہوئی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی 19 اکتوبر کو قائم کی گئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟ رپورٹ کس کو دیگی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیٹی وزارت دفاع کو رپورٹ جمع کرائے گی، پہلا اجلاس 26 اکتوبر کو ہوچکا، کمیٹی رپورٹ عدالت میں بھی پیش کی جائیگی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی ٹی او آرز کے ذریعے ہی تمام لوگوں کو بری کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیدیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی فیصلے کے بعد ملک آئین پر چل رہا ہے؟ کیا آپ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ آج ملک آئین کے مطابق چل رہا؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلے پر آج تک عمل کیوں نہیں کیا گیا، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوئے اور واپس چلے گئے، دھرنا اچانک نہیں ہوا، مینج کون کر رہا تھا اور ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ کمیٹی رپورٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، ہم جاننا چاہتے ہیں دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ٹی او آرز اتنے وسیع کر دیے کہ ہر کوئی بری ہو جائیگا، اربوں روپے کا نقصان ہوا مگر سرکار کو کوئی پرواہ نہیں، ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ کون سے مخصوص واقعے کی انکوائری کرنی ہے، ہمارا کام حکم کرنا ہے آپ کا کام اس پر عمل کرانا ہے، کمیٹی ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ تحقیقات کس چیز کی کرنی ہیں؟ کیا تحقیقات سیلاب کی کرنی ہے یا کسی اور چیز کی؟جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کمیٹی کی منظوری کابینہ نے دی ہے؟ کمیٹی کا قیام کس قانون کے تحت ہوا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ واضح کریں کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے، کمیٹی کے قیام کی دستاویز صرف کاغذ کا ٹکڑا ہے اور کاغذ کے ٹکڑوں سے پاکستان نہیں چلے گا، اگر ابصار عالم یا کوئی کمیٹی میں پیش ہونے سے انکار کرے تو کیا ہوگا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی اگر انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت بنتی تو شاید کچھ کر بھی سکتی، حکومت نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کچھ نہیں کیا، انکوائری کمیشن قانون کے تحت بنی کمیٹی کو تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں، حکومت پھر صاف کہہ دے کہ اس نے کچھ نہیں کرنا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انکوائری ایکٹ کے تحت نیا کمیشن تشکیل دیا جائیگا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کمیشن کیلئے وفاقی حکومت کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ حکومت فیصلے پر عمل درآمد چاہتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کی بالادستی ہر قیمت پر قائم کرنی ہوتی ہے، فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ تاریخی ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے کیخلاف پہلے نو نظرثانی درخواستیں آئیں پھر سب نے اچانک واپس لے لیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والے شخص کو بھی کمیشن کا سربراہ بنا سکتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نظرثانی دائر کرکے واپس لینا مذاق ہے؟ کون سا قانون کہتا ہے نظرثانی دائر ہوجائے تو فیصلے پر عمل نہیں کرنا؟ کیا ہماری حکومت نے کینیڈا کی حکومت سے رابطہ کیا ہے؟ ایک شخص کینیڈا سے آتا ہے اور پورا ملک اوپر نیچے کرکے چلا جاتا ہے، کینیڈا نے سکھ رہنما کے قتل پر کتنا ردعمل دیا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم کینیڈا میں جا کر انکے پورے ملک کو ڈسٹرب کرسکتے ہیں؟ کیا کینیڈا سے آنے والے نے ٹکٹ خود خریدی تھی؟ پاکستان کا اتنا ہی درد ہے تو یہاں آ کر کیوں نہیں رہتے؟ کینیڈا کی سرزمین پر قتل ہوا انھوں نے کہا ہماری سرزمین پر قتل ہوا، تحقیقات کرینگے، اس واقعے میں دونوں ممالک کے تعلقات ختم ہونے کا اندیشہ ہے، یہاں ملک اور دین اسلام کو بدنام کریں کوئی پوچھنے والا نہیں، یہاں کسی کو کوئی پرواہ نہیں، کیا فیض آباد دھرنے کا مقصد حکومت کیخلاف سازش تھی، اصلی مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب تک ملک آئین کے تحت نہیں چلے گا لوگوں کی مشکلات حل نہیں ہونگی۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ فیض آباد دھرنے کے وقت حکومت اچھی تھی یا بری تھی جیسی بھی تھی عوام کے ووٹ سے آئی تھی، قانون میں تبدیلی کو ختم کرنے کے باوجود فیض آباد دھرنا جاری رکھنا عیاں کرتا ہے مقاصد کچھ اور تھے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ریفرنس ابھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، ایک وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم پاکستان انکوائری آف کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایسے بات نہ کریں، حکومت سے ہدایات لیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ کے لیے مثال ہونی چاہیے کہ اگر ایسا ہوا تو سنگین نتائج ہونگے، ابصار عالم کے بیان حلفی کے تناظر میں تو پھر الیکشن کمیشن سمیت تمام ادارے آزاد نہیں تھے، کیا کوئی پاکستانی کینیڈا جاکر احتجاج کر سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لیکن کینیڈا سے تو کوئی یہاں آکر نظام مفلوج کر سکتا ہے، کینیڈا والے کو پاکستان کون لیکر آیا تھا۔ سپریم کورٹ نے چیئرمین پیمرا کو فوری طلب کرلیا۔ چیئرمین پیمرا کو ابصار عالم کے بیان حلفی کے حوالے سے طلب کیا گیا ہے۔ عدالت نے پیمرا کے وکیل سے استفسار کیا کہ پیمرا کے سابق چیئرمین کا بیان حلفی پڑھا ہے؟ حافظ ایس اے رحمان نے بتایا کہ ابصار عالم کا بیان حلفی مجھے ابھی ملا ہے، جس پر عدالت نے سینیئر وکیل حافظ ایس اے رحمان پر اظہار برہمی کیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کو بیان حلفی گھر جا کر دیتے؟ عدالت نے ڈی جی آپریشنز پیمرا کو روسٹم پر بلا لیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے کالا کوٹ کیوں پہنا ہوا ہے؟ کیا آپ وکیل ہیں؟ ڈی جی آپریشنز نے جواب دیا کہ کالا رنگ روٹین میں پہنا ہے۔کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو چیئرمین پیمرا سلیم بیگ عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے وکیل نے سابق چیئرمین پیمرا کا بیان نہ پڑھنے کا بیان دیا، آپ کے وکیل کے بیان پر ہمیں تعجب ہوا۔ چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ کیا ابصار عالم کا بیان آپ نے پڑھا؟ چیئرمین پیمرا نے جواب میں کہا کہ ابصار عالم کے ذاتی بیان حلفی کے حقائق بارے میں لاعلم ہوں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا آپ ہے ساتھ ایسا کبھی ہوا؟ چیئرمین پیمرا نے کہا کہ میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ذاتی طور پر کچھ علم ہے یا نہیں، جس پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ دفتری امور کی تصدیق کرسکتا ہوں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کب سے چیئرمین پیمرا ہیں، سلیم بیگ نے بتایا کہ میں 28 جون 2018 سے چیئرمین پیمرا ہوں، چیئرمین پیمرا بننے سے پہلے انفارمیشن میں بطور پی آئی او فرائض سر انجام دے رہا تھا۔