کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“میں میزبان مبشر ہاشمی کے سوال موجودہ صورتحال میں نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان رابطے کی وجہ کیا؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان رابطہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں بڑھتی کشیدگی کم کرنے کیلئے ہوا۔
ایک دوسرے سوال پر تجزیہ کاروں نے کہا کہ سیاستدانوں کو نگراں حکومت نہیں چاہئے تو پھر انڈیا جیسا خودمختار الیکشن کمیشن ہونا چاہئے۔
مظہر عباس نے کہا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان رابطہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں بڑھتی کشیدگی کم کرنے کیلئے ہوا ہے، آصف زرداری اور نواز شریف میں رابطہ آج نہیں ن لیگ کے قائد کی واپسی کے وقت ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ مہینے پہلے دبئی میں آصف زرداری، نواز شریف ملاقات میں پنجاب پر اختلافات ہوئے تھے، پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں کم بیک کرنے کیلئے ن لیگ کی حمایت چاہتی تھی، سندھ میں پیپلز پارٹی زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنا چاہتی ہے۔
مظہر عباس کے مطابق پیپلز پارٹی کراچی میں کم از کم دس نشستیں چاہتی ہے، سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف اتحاد بنتا ہے تو کچھ نشستوں پر اسے مشکل ہوسکتی ہے، ن لیگ پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرسکتی ہے۔
سلیم صافی کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان رسمی رابطہ ہوا ہے، نواز شریف آصف زرداری سے ون ٹو ون ملاقات نہیں کریں گے، ن لیگی ذرائع کے مطابق نواز شریف تمام بڑے سیاسی رہنماؤں کو اپنے گھر کھانے پر دعوت دیں گے۔
ن لیگ کے مطابق جو لیڈرز نواز شریف کی دعوت میں آئیں گے ان کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ کی بات آگے بڑھائی جائے گی، آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا اتحاد بنتا ہوا نظر نہیں آرہا، پیپلز پارٹی کو اندازہ ہوگیا ہے کہ وزارت عظمیٰ ن لیگ کے حصے میں آنے والی ہے اس لیے شور مچانا شروع کردیا ہے۔
ارشاد بھٹی نے کہا کہ نواز شریف اور آصف زرداری جب چاہے مرضی رابطہ کریں مگر ریاست کی فکر نہ کریں، ریاست سے جمہوریت تک سب سے بڑا خطرہ ہی انہی دونوں سے ہے۔
پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا اتحاد ناممکن ہے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ الیکشن سے پہلے ایک دوسرے کیخلاف جعلی فائرنگ کریں گی، الیکشن کے بعد مفاد ہوا تو بھٹو اور ضیاء ایک چھتری کے نیچے اقتدار شیئر کریں گے۔
فخر درانی کا کہنا تھا کہ میری اطلاعات ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی عنقریب ملاقات ہونی ہے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی تلخی ایک حد سے آگے نہیں بڑھے گی، عمران خان کہتے تھے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی نورا کشتی ہے یہ اسی طرح چلتی رہے گی، نواز شریف نے پیپلز پارٹی کو مثبت پیغام دینے کیلئے سندھ کا دورہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔
دوسر ے سوال کیا نگراں حکومت کے قیام سے متعلق سیاسی رہنماؤں کے تحفظات درست ہیں؟ کا جواب دیتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ پاکستان کا سیاسی کلچر اتنا مضبوط نہیں کہ نگراں حکومت کے بجائے پہلے موجود حکومت کے تحت انتخابات کرائے جائیں۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں کو نگراں حکومت نہیں چاہئے تو پھر انڈیا جیسا خودمختار الیکشن کمیشن ہونا چاہئے، سیاستدانوں نے کبھی اس سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہیں کیا کہ منتخب حکومت کے تحت انتخابات سب تسلیم کریں، نگراں وزیراعظم غیرملکی دورے کیوں کررہے ہیں۔
ارشاد بھٹی نے کہا کہ سیاستدانوں کو نگراں حکومتیں نہیں چاہئیں تو الیکشن کمیشن مضبوط ہونا چاہئے، چیف الیکشن کمشنر اور باقی ممبران کو سیاسی حکومتوں کو منتخب کرنا چاہئے، نگراں حکومت نہیں ہو اور حکمراں جماعت دھاندلی پر اتر آئے تو کیا ہوگا۔