• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا نعمان نعیم

دنیا دارالامتحان ہے،جس طرح ایمان سے محروم انسان کو ابتلاء وآزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے، اسی طرح صاحبِ ایمان کے لیے بھی ابتلاء وآزمائش مقدر ہوتی ہے، اسلام کا تصوریہ ہے کہ بیماری اور شفاءاللہ کی طرف سے ہوتی ہے، فرماں بردار اورنافرماں کی کوئی تخصیص نہیں ہے، حضرات انبیائے کرام ؑبھی بیمارہوئے ہیں، سیدالمرسلین اورامام الانبیاء ﷺبھی متعدد مرتبہ بیماری میں مبتلا ہوئے، وصال کے موقع پر تقریباً چودہ دن بیمار رہے، بیماری مومن کے لیے امتحان وآزمائش ہے، دنیا میں آزمائشیں بخشش اور مغفرت کے لیے آتی ہیں، حقیقت میں بیماری ایک نعمت ہے، گناہوں کے لیے کفارہ اور رفع درجات کا سبب ہے، بیمار کو اللہ اوربندوں سے معافی تلافی اورحقوق کی ادائیگی کے لیے ایک موقع دیاجاتا ہے۔

حضرت کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا:مومن کی مثال نرم ونازک پودے کی سی ہے، جسے ہوائیں ادھرسے ادھرجھکاتی رہتی ہیں،منافق کی مثال صنوبرکے درخت کی سی ہے، جس کی جڑیں زمین میں نہایت مضبوط ہوتی ہیں، ہوائیں اسے اِدھر اُھرجھکانہیں سکتیں، یہاں تک کہ اسے یکبارگی اکھاڑ دیاجاتا ہے۔ (بخاری،کتاب المرضی،باب کفارۃ المرض: ۵۶۴۳) یعنی مومن کو غفلت سے بیدارکرنے اوراس کی اخروی ترقی کے لیے باربارآزمائشیں آتی رہتی ہیں، منافق اوربے ایمان کو مہلت دی جاتی ہے اوروہ غفلت کی زندگی میں مست ہوتا ہے، یہاں تک کہ اچانک اسے موت آجاتی ہے،یااس پرکوئی عذاب نازل ہوجاتاہے، جس کی وجہ سے اس کے لیے توبہ،استغفار اورگناہوں سے معافی تلافی کی کوئی صورت با قی نہیں رہتی۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے: میری عزت اورجلال کی قسم!میں کسی شخص کو جس کی میں مغفرت کرنا چاہتا ہوں، اسےدنیاسے نہیں نکالتا، یہاں تک کہ بدنی بیماری اوررزق کی تنگی میں مبتلاکرکے اس کی گردن پر موجود گناہوں سے اس بندے کو پاک و صاف نہ کردوں۔(مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الجنائز،باب عیادۃ المریض:۱۵۸۵)

حضرت ابوسعیدخدری ؓ اورحضرت ابوہریرہ ؓرسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کوجو تھکان، بیماری،غم ورنج، کوئی تکلیف اورغم حتیٰ کہ کانٹابھی چبھتاہے،تواللہ تعالیٰ اس تکلیف کی وجہ سے اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے۔ (صحیح بخاری،کتاب المرضی:۵۶۴۱)

رسول اللہ ﷺ ام سائبؓ کے پاس تشریف لے گئے اورفرمایا:کیابات ہے کہ تم لمبی لمبی سانس لے رہی ہو؟انھوں نے کہا: بخار ہے، اللہ اسے نامبارک بنائے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بخارکو برابھلانہ کہو،کیوں کہ بخارانسان کے گناہوں کو اس طرح دور کردیتا ہے، جس طرح بھٹی لوہے کی گندگی کو دورکردیتی ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب المرضی، باب اشدالناس بلاء:۵۶۴۸)

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کسی مسلمان کوبیماری،یاکوئی تکلیف پہنچتی ہے،تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس تکلیف اوربیماری کی وجہ سے اس مسلمان کے گناہوں کواس طرح (تیزی سے )گراتے ہیں، جس طرح درخت (موسم خزاں میں )اپنے سوکھے پتوں کو (تیزی سے)گراتاہے، یعنی مسلمان کم وقت میں اپنے تمام گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتا ہے۔(صحیح مسلم،کتاب البروالصلۃ،باب ثواب الموٴمن:۲۵۷۵)

ابوالاشعث صنعانیؒ فرماتے ہیں:میں صبح سویرے دمشق کی جامع مسجد پہنچا، میری ملاقات اصحاب ِرسول اللہ ﷺ حضرت شدادبن اوسؓ اور صنابحیؓ سے ہوئی، میں نے ان دونوں سے عرض کیا:اللہ تم پررحم کرے،آپ حضرات کہاں جارہے ہیں؟انھوں نے فرمایا:قریب میں ہماراایک بھائی ہے، اس کی عیادت کے لیے ہم جارہے ہیں،تومیں بھی ان کے ساتھ ہوگیا، پھر ہم لوگ چلے اوراس بھائی کے پاس پہنچے،ان دونوں صحابہ کرامؓ نے اس مریض سے پوچھا کہ تم نے صبح کیسی کی؟(خیریت سے ہو)اس مریض نے کہا:اللہ کے فضل سے صبح کی،(الحمدللہ خیریت سے ہوں)پھرحضرت شدادؓ نے فرمایا: گناہوں کو مٹانے والی اور معاف کرانے والی چیزوں سے خوش ہوجاؤ،میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میں اپنے کسی موٴمن بندے کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ بندہ آزمائش میں بھی میری حمدوثنابیان کرتاہے(تقدیر پر راضی رہ کر ثواب کی امید رکھتا ہے، صبر کرتاہے، بے صبری،جزع وفزع اورشکوے شکایات سے احتراز کرتاہے) تو وہ اپنی بیماری کے بسترسے(گناہوں سے پاک وصاف ہوکر ) اس طرح اٹھے گا، جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو،اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے)فرماتا ہے:میں نے اپنے بندے کو عمل کرنے سے روک دیاتھا اورآزمائش میں مبتلا کر رکھا تھا، لہٰذا اس کے لیے اسی طرح اجرلکھاکرو جس طرح تم اس کی صحت کے زمانے میں اجرلکھاکرتے تھے۔ (مسند احمد، مسند شداد بن اوس :۱۷۱۱۸)

بیماری ایک طرح سے رحمت ہے،اس سے گناہوں کی صفائی ہوتی ہے اور جنت میں درجات بلند ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ بعض بندوں کے لیے آخرت میں بلند مقام کا فیصلہ کرتا ہے،مگر ان کے پاس وہ اعمال نہیں ہوتے جن کی وجہ سے وہ اس کے مستحق ہوسکیں، اس لیے بسا اوقات بیماریوں اور آزمائشوں میں مبتلا کر کے انہیں اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ آخرت کے اس بلند مقام کے اہل ہوجائیں۔پریشانیاں اوربیماریاں ہمارے لیے رفعِ درجات کاذریعہ ہیں، بشرط یہ کہ ہم صبروہمت سے کام لیں اور ثواب کی امید رکھیں اورخدائی فیصلے اورتقدیرپر راضی رہیں۔

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: دنیا میں عافیت سے رہنے والے قیامت میں جب آزمائش والوں کو دیکھیں گےکہ ان کو خو ب اجر وثواب دیاجارہاہے،تو وہ لوگ یہ تمنا کریں گے کہ کا ش دنیا میں ان کے جسموں کو قینچیوں سے کاٹ دیاجاتا اور ان کو بھی اسی طرح اجر وثواب دیاجاتا،جیسے ان آزمائش والوں کو دیاجارہا ہے۔(جامع ترمذی، ابواب الزھد:۲۴۰۲)

ایک صحت مندانسان جن کاموں کو کرسکتاہے،بیمارآدمی ان کوانجام دے نہیں سکتا،اللہ تعالیٰ کا انتہائی فضل وکرم ہے کہ موٴمن بندہ کسی عمل کو پابندی اوراہتمام سے کرتاتھا، مرض، سفریا کسی اورعذرکی وجہ سے وہ عمل چھوٹ جائے،تو بھی اس عمل کا جروثواب اس کے لیے لکھاجاتاہے۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب کوئی بندہ کوئی عبادت کرتارہے، پھر بیمار ہوجائے، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں: اس بندے کے لیے اس عمل کا ثواب بھی لکھو جوعمل وہ صحت کی حالت میں کیاکرتا تھا؛ یہاں تک کہ میں اسے صحت دے دوں،یا اپنے پاس بلالوں۔(مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الجنائز،باب عیادۃ المریض:۱۵۵۹)

حضرت انسؓ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب مومن بندہ کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ فرشتے سے فرماتا ہے:ان نیک اعمال کو اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیاکرو ،جنہیں وہ (صحت کے زمانے میں) کیا کرتا تھا، پھر اللہ تعالیٰ اسے شفاوصحت عطا فرمادے، تو اسے گناہوں سے پاک وصاف فرما دیتا ہے، اگراسے اپنے پاس بلالے،تو اسے معاف فرما دیتا ہے اور اس پررحم فرماتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الجنائز،باب عیادۃ المریض:۱۵۶۰)

جب کوئی دکھ، مصیبت اور بیماری پیش آ جائے، تو وہ مایوسی اور سراسیمگی کا شکار نہ ہوں، بلکہ ایمانی صبر و ثبات کے ساتھ اس کا استقبال کریں اور دل میں یہ یقین رکھیں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، جو ہمارا حکیم اور کریم رب ہے اور وہی ہم کو اس دکھ، مصیبت اوربیماری سے نجات دینے والا ہے۔ اس دنیا میں تکلیف اور آرام تو سب ہی کے لیے ہے، لیکن اس تکلیف اور آرام سے اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنا یہ صرف اُن اہل ایمان ہی کا حصہ ہے جو چین و آرام اور مسرت و خوشی کی ہر گھڑی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور جب کسی رنج اور دکھ میں مبتلا کیے جاتے ہیں اور کوئی بیماری اور تنگی انہیں پیش آتی ہے، تو وہ بندگی کی پوری شان کے ساتھ صبر کرتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندۂ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اسے خوشی اور راحت و آرام پہنچے، تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اسے دکھ اور رنج پہنچتا ہے، تو وہ (اسے بھی اپنے حکیم و کریم رب کا فیصلہ اور اس کی مشیت یقین کرتے ہوئے) اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے سراسر خیر اور موجبِ برکت ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الزہد والرقاق:۲۹۹۹)

صبر کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی مصیبت اور تکلیف کا کسی کے سامنے اظہار نہ کرے اور ایسے صابروں کے لیے اس حدیث میں مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بخشش کا ذمہ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان وعدوں پر یقین اور ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اقراء سے مزید