بوڑھے باپ نے اپنے سب بیٹوں کو بلایا- سارے بیٹے آس پاس بیٹھ گئے۔ ایک نظر سب پر ڈالی اور کہنے لگا- “ میں اپنی زندگی گزار چکا ہوں۔اس سے پہلے کہ آنکھیں بند ہوجائیں اپنی جائیداد تم میں تقسیم کردیتا ہوں“ سب کو اچھا خاصہ حصہ ملے گا، مگر یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔وہ تم اپنی بہنوں کو مجبور کرو کہ وہ اپنے حق سے دستبردار ہوجائیں ورنہ “… ورنہ کیا ہوگا؟ ابا جان “ سب سے چھوٹا بیٹا اپنے والد محترم سے فوری طور پر پوچھ بیٹھا۔ بوڑھے باپ کے چہرے پر کئی تلخ لہریں آئیں اور آ کر گزر گئیں خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا “ ورنہ تمہارے باپ کی زمین غیروں میں چلی جائے گی“۔
چھوٹا بیٹا ذرا خود سر سا تھا پوچھنے لگا “ ابا جان بیٹی کو جائیداد سے حق دینےکا حکم تو خدا کا ہے، کیا خدا کو یہ علم نہ تھا کہ بیٹی کو حصہ دینے سے زمین غیروں میں چلی جائے گی؟“ کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ کسی کے کچھ بولنے سے پہلے وہ پھر بول اٹھا “ بیٹی کو زمین دیتے ہوئے آپ کو لگا کہ زمین غیروں میں چلی جائے گی، مگر داماد کو بیٹی دیتے ہوئے آپ نے کیوں نہ سوچا کہ بیٹی غیروں میں چلی جائے گی“۔بات صرف ایک اچھی اور مثبت سوچ کی ہے کسی کی حق تلفی سے نہ تو دل کو سکون مل سکتا ہے اور نہ ہی آخرت سنور سکتی ہے۔