اسلام آباد(رپورٹ، رانا مسعود حسین)فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ نے انکوائری کمیشن میں ہر کسی کو بلانے کا اختیار دیدیا، اٹارنی جنرل نے دھرنے کے مقاصد اور اسکے ماسٹر مائنڈ کا سراغ لگانے کیلئے انکوائری کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں پیش کردیا ہے، کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سب کو معلوم ہے کون سب کچھ کر رہا تھا، نام لینے کی کسی میں ہمت نہیں، انہوں نے واضح کیا کہ کمیشن کے بلانے پر کوئی نہ گیا تو گرفتار بھی کروایا جاسکتا ہے، ابصار عالم نے استفسار کیا کہ کیا سابق ڈی جی آئی ایس آئی، چیف جسٹس یا وزیر اعظم کو بلا سکیں گے، جسٹس اطہر من اللہ کہا ہم سے وہ کام نہ کروائیں جو کبھی از خود نوٹس اختیار کا استعمال کر کے ماضی میں ہوتا رہاہے، ہوسکتا ہے کہ ساٹھ دنوں میں آپکی بات سچ نکل آئے؟ چیف جسٹس نے کہا جنہوں نے سچ نکالنا ہوتا ہے وہ نکال لیتے ہیں،تحقیقاتی کمیشن نے اب دو کام کرنے ہیں یا تو قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکے گا ؟یا پھر ایک ٹرینڈ سیٹ کریگا ؟ کیا سپریم کورٹ کو اس وقت باہر سے کوئی کنٹرول کر رہا تھا؟سب کو پتہ ہے،لیکن بتاتا کوئی نہیں ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی۔ سماعت شروع ہونے سے قبل وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کیلئے کمیشن تشکیل دیا جسکا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ شیخ رشید کی نظرثانی درخواست واپس لینے پر سپریم کورٹ نے خارج کر دی۔ چیف جسٹس نے شیخ رشید سے استفسار کیا کہ آپ نے نظرثانی کی درخواست دائر ہی کیوں کی تھی، نظرثانی دائر کر کے چار سال لٹکائے رکھا۔ یہ نہیں ہوگا کہ اوپر سے حکم آیا ہے تو نظرثانی دائر کر دی۔وکیل شیخ رشید نے کہا کہ کچھ غلط فہمی پیدا ہوئی تھی اس لیے نظرثانی درخواست دائر کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سچ سب کو پتہ ہے بولتا کوئی نہیں کوئی ہمت نہیں کرتا، وکیل شیخ رشید نے کہا کہ آج کل تو سچ بولنا اور ہمت کرنا کچھ زیادہ مشکل ہوگیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج کل کی بات نہ کریں ہم اس وقت کی بات کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا سپریم کورٹ کو کوئی باہر سے کنٹرول کر رہا ہے، نظرثانی کی درخواست آجاتی ہے پھر کئی سال تک لگتی ہی نہیں، پھر کہا جاتا ہے کہ فیصلے پر عمل نہیں کیا جا رہا کیونکہ نظرثانی زیر التوا ہے، آپ اب بھی یہ سچ نہیں بولیں گے کہ کس نے نظرثانی کا کہا تھا۔وکیل شیخ رشید نے کہا کہ مجھے کسی نے نہیں کہا تھا، وکیل کے مشورے سے نظرثانی دائر کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کو لگتا ہے ماضی میں اپنے فائدے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا، 100 سال بعد بھی یہ سچ نہیں بولا جائے گا کہ نظرثانی درخواستیں کس نے دائر کروائیں۔