• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی

تصاویر: اسرائیل انصاری

ڈاکٹر قیصر بنگالی(سابق مشیر، حکومت سندھ بلوچستان)

پروفیسر ڈاکٹر محمدشائق(ڈین، شعبہ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن اسٹڈیز گرین وچ یونیورسٹی)

ناصر منصور( جنرل سیکریٹری، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان)

ڈاکٹر قیصر بنگالی
ڈاکٹر قیصر بنگالی

 غربت صرف روزگار سے ختم ہوسکتی ہے اور روزگار معیشت کے آگے بڑھنے سے بڑھتا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ملکی معیشت کے خاص شعبے زراعت ور صنعت آگے بڑھ رہے ہوں، موجودہ حالات بڑے گھمبیر ہیں ملک دیوالیہ ہوچکا ہے، میں قرضہ لوں اور اسے واپس نہ کرسکوں یہ ہی دیوالیہ ہونے کی تعریف ہے، ہم صرف قرض لے کر قرض واپس کرتے ہیں اور اب اتنے قرضے ہوگئے ہیں ،ڈیفالٹ کا اتنارسک ہے اب قرضہ دینے والے بھی قرض نہیں دے رہے، اشیا خوردونوش کے مہنگے ہونے کا سب سے زیادہ اثر غریب پر پڑتا ہے،جب ہم بنیادی کھانے پینے کی چیزیں خود پیدا کریں گے تو وہ مہنگی نہیں ہوگی اور غربت میں کمی آئے گی۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی

ڈاکٹر محمد شائق
ڈاکٹر محمد شائق

غربت معاشیات سے زیادہ سماجی مسئلہ ہے،یہ صرف پیسے نہ ہونے کا نام نہیں،غربت سوشل ٹریپ ہے جس میں ہمارے لوگ پھنس گئے ہیں ، انہیں اس میں پھنسایا گیا ہے ،تاکہ ان کے پاس وہ وسائل ہی نہیں پہنچ سکیں جس کی مدد سے وہ آگے جاسکیں، اگر ہمیں غربت کے جال سے نکلنا ہے،اس کے لیے ہمیں پورا سوشل سیٹ اپ اور سوشل فریم ورک اس طرح کا بنانا ہوگا جس میں ان کی آواز کی اہمیت ہو ان کی طاقت بنے

ڈاکٹر محمد شائق

پاکستان کی 60فیصد آبادی دیہات میں آباد ہے،لینڈریفارمز کریں جو پاکستان کے علاوہ ہمارے ارد گرد سارے خطے میں پہلے ہی ہوچکی ہے،دفاعی اخراجات کی ضرورت نہیں ہے، یہ اخراجات تو اس خوف سے کیے جاتے ہیں کوئی دوسرا ہم پر حملہ کرے گا۔ 

ناصر منصور
ناصر منصور

اگر ہم اپنی سیاست اور خارجہ امور کو ٹھیک کرلیں تو پھر اس کی ضرورت نہیں پڑے گی، پڑوسی ملکوں سے تعلقات ٹھیک کریں، اس کی کئی مثالیں موجود ہے ،انڈیا اور چین کے درمیان کئی تنازعات موجود ہیں، لیکن ان اختلافات کے باوجود وہ ایک دوسرے سے تجارت کرتے ہیں دونوں کے درمیان 137 ارب سالانہ کی تجارت ہے۔

ناصر منصور

 پاکستان میں غربت کے حوالے سے خوف ناک اعدادوشمار سامنے آرہے ہیں، عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ بھی انتہائی سنگین صورت حال ظاہر کرتی ہےجس کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران مزید سواکروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جاچکے ہیں، جو بہت بڑی تعداد ہے،یہ اضافہ پانچ فیصد کی شرح سے ہوا ہے، سرکاری اعداد وشمار کے مطابق شرح 34فیصد سے بڑھ کر39فیصد ہوگئی ہے،لیکن آزاد ذرائع پچاس فیصد بتارہے ہیں۔

اگر یہ درست ہے تو اس کا مطلب پاکستان کی نصف آبادی غربت کی شرح سے نیچے جاچکی ہے۔پاکستان کاشمار خوش حال ملکوں میں نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود اگر ہم ماضی کاجائزہ لیں تومعلوم ہوتا ہے کہ دوہزاراٹھارہ کے بعد سے غربت کی شرح میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔2018 میں غربت کی شرح 24فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔یعنی جوشخص دوہزار اٹھارہ میں ایک ڈالر کما تا تھاتووہ غربت کی شرح کے نیچے تھا اس وقت ڈالر 105روپے کا تھا۔

آج اگر کوئی تین اعشاریہ چھ ڈالرروزانہ یا ایک ہزار یومیہ اور ماہانہ تیس ہزارروپےکماتا ہے ،تواب وہ بھی غریب ہوگیا ہے۔ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کتنی بڑی تعداد غربت کاشکار ہوگئی ہے۔ اب تو سرکاری طور پر بھی 32ہزارماہانہ کم ازکم تنخواہ رکھی گئی ہے گوکہ اس میں ابھی عمل درآمد کے مسائل ہیں۔ان حالات میں پاکستان میں آج سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا مڈل کلاس ختم ہوجائے گی دو ہزار اٹھارہ تک مڈل کلاس طبقہ اوپر جارہا تھا وہ اب غربت کی لکیر سے نیچے جارہا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں پاکستان میں صرف ایک عشرہ قبل دوہزار تیرہ اور چودہ میں پاکستان میں غربت میں زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ان دنوں سات اعشاریہ پانچ فیصد لوگ غربت کی لکیر سےاوپر گئے تھے غریب کے حالات بہتر ہوئے تھے۔

لیکن دوہزار اٹھارہ کے بعد جو تباہی آئی ہے اس کےبعد سے غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ آج ہمارا موضوع بھی غربت ہے ،پاکستان میں غربت میں اضافے کی کیا وجوہات ہیں اس کے سدباب کےلیے کس طرح کی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے، ایسے کون سے اقدامات کرنے پڑیں گےجس سےہم اپنی غریب عوام غربت سے نکال کر اوپر لاسکیں اور مڈل کلاس طبقے کو ختم ہونے سے بچاسکیں۔

فورم میں اظہار خیال کرنے کےلیے ہمارے ساتھ شریک گفتگو ہیں ڈاکٹر قیصر بنگالی جوناموراقتصادی ماہر ہیں اور سابق مشیر حکومت سندھ رہے اوراین ایف سی ایوارڈ کےلیے حکومت سندھ اور بلوچستان کی نمائندگی بھی کرچکے ہیں،ہمارے دوسرے مہمان جو آج میزبان بھی ہیں پروفیسر ڈاکٹر محمد شائق جو ڈین ہیں ، شعبہ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن اسٹڈیز گرین وچ یونیورسٹی اور تیسرے مہمان ناصر منصور ہیں جونیشنل ٹریڈیونین پاکستان کے جنرل سیکریٹری ہیں ،گفتگو کا آغاز ڈاکٹر محمد شائق سے کرتے ہیں۔

جنگ: غربت پاکستان کا کتنا سنگین مسئلہ ہے اوراسے کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟

ڈاکٹر محمد شائق: غربت کے اسباب ،سدباب اورتدارک بظاہر آسان اور چھوٹا سے لفظ ہےکہ غربت کے اسباب اور سدباب پر بات کی جائے، میں سمجھتا ہوں اس پر بات کرنا بہت مشکل ہے، غربت کی جوبھی تعریف ہے لیکن میرے خیال میں غربت معاشیات سے زیادہ سماجی مسئلہ ہے، یہ صرف پیسے نہ ہونے کا نام نہیں،غربت سوشل ٹریپ ہے جس میں ہمارے لوگ پھنس گئے ہیں ، انہیں اس میں پھنسایا گیا ہے،

سوشل ٹریپ کے ذریعے انہیں اس طرح رکھاجاتا ہے کہ انہیں اپنی ضرورتیں پورا کرنے کےلیے وسائل بھی نہ مل سکیں،تو میں اسے دوسری طرح کہوں گا میں یہ نہیں کہوں گا کہ کیوں کہ وہ غریب ہیں اس وجہ سے ان کے پاس اچھی تعلیم ،صحت اور دیگر ضروریات کے لیے وسائل نہیں ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں یہ سوشل ٹریپ ہے انہیں اس بہانے جکڑا جاتا ہے، تاکہ ان کے پاس وہ وسائل ہی نہیں پہنچ سکیں جس کی مدد سے وہ آگے جاسکیں۔

جب انسان کو دنیا میں بھیجا گیا تو اس سے پہلے زندہ رہنے کے تمام وسائل اسے مہیا کردیئے گئے تھے اور انسان کو بقا کی ضمانت دی گئی ہے لیکن کسی کو ملکیت نہیں دی گئی، سارے وسائل سب کےلیے موجود تھے، مسئلہ جب شروع ہوا جب ہم نے لکیریں کھینچ کر وسائل پراپنی ملکیت کا سکہ جمانا شروع کیا، وہ ملکیت کسی بھی بنیاد پر ہو،کسی نے سماجی حیثیت کی بنیاد پر،کسی نے مالی بنیا دپر، چاہے وہ طاقت فوجی ہو یا گروہی ہو، لوگوں نےاس طاقت کو استعمال کرکے وسائل کو شخصی ملکیت کا ایک تصور دیا،اس تصور کے نتیجے میں اب ہوا یہ کہ جس کے پاس جوہونا چاہیے تھا اسے وہ نہیں ملا، اور جس کے نہیں ہونا چاہیے تھا اسے بہت زیادہ ملا،یا تو بہت زیادہ ملا اور کسی کو کچھ بھی نہیں ملا اور اس طرح ہمارا معاشرہ دو حصوں میں بٹ گیا۔

اگرہمیں غربت کے جال سے نکلنا ہے،اس کے لیے ہمیں پورا سوشل سیٹ اپ اور سوشل فریم ورک اس طرح کا بنانا ہوگا جس میں ان کی آواز کی اہمیت ہو ان کی طاقت بنے اور کیسے ہو وہ بھی لمبی بحث ہے۔لوگوں کو غربت میں دھکیل کر کیا یہ جاتا ہے اس آواز کو دبا دیا جائے، یہاں غربت کی بڑھتی شرح کا ذکر ہورہا ہے، او ایس ای ڈی کی رپورٹ نکالیں،اور دیکھیں کہ وہ کون سے ملک ہیں جہاں سب سے کم غربت کی شرح ہے۔

ان میں تین نام آئس لینڈ،چیک ریپلک اور ڈنمارک ان میں سے دو ناردن ریجن کےملک ہیں،ناردن ریجن ماڈل کی جو بات کی گئی ہے ،انہوں نے صرف ایک بات کہی ان کے مقابلے میں جہاں شرح غربت زیادہ ہے۔ اس سوسائٹی میں دوتہائی میٹریل ایسے ہیں  جس میں لیبرز، ویجز اور لیبرفورس کو کس طرح آسانی دی گئی ہے، جو ایک ویلفیئر ریاست کا ماڈل ہے۔

اس پورے ماڈل میں معیشت کی بات کہیں نہیں ہے، انہوں نے وہاں صرف سوسائٹی کی بات کی ہے، سماجی قدروں کی بات کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ وجہ ہے جس کی وجہ سے ان ممالک میں شرح غربت کم ہے۔

جنگ: بڑھتی غربت سنگین مسئلہ ہےاسے کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟

ناصر منصور : شائق صاحب نےبڑی تفصیل سے مسائل کا احاطہ کیا ہے،یہ سارے مسائل پرائیوٹ پراپرٹی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں، کسی نے کہا تھا سب سے بڑا بدبخت انسان وہ تھا جس نے زمین پر لکیر بناکر کہا یہ جگہ میری ہے، اور جب سے ہم کی جگہ میں کا استعمال شروع ہوا۔ انسان کی پوری تاریخ ہم میں ہے، میں بہت کم ہے۔ ہم جو بھی پیداوار کرتے ہیں وہ اشتراکی ہے، مشترکہ ہے لہذا اس کی تقسیم بھی مشترکہ ہونی چاہیے، میں بھی اس نکتہ کو درست سمجھتا ہوں کہ یہ معاشی نہیں سماجی مسئلہ ہے اورمعیشت اس کا ایک حصہ ہے۔

پاکستان کی موجودہ صورت حال میں نو سے دس کروڑ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے،پاکستان کی ورک فورس بھی گیارے سے ساڑھے گیارہ کروڑ لوگوں پر مشتمل ہے جنہیں ہم لیبر فورس کہتے ہیں، تقریبا 12کروڑ پاکستان کے ووٹرز ہیں،اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ 90فیصد ورک فورس ووٹر بھی ہے۔لیکن اپنی اسمبلی میں شرح نمائندگی دیکھیں، جس میں صوبائی، قومی اورسینیٹ سب شامل ہیں، اس میں کام کرنے والوں کی نمائندگی کتنی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ ملک کس طرف جارہا ہے۔

یہ بنیادی طور پر اشرافیہ یا اایلیٹ کلاس کا سوال ہے جس میں سول اور ملٹری دونوں کلا س شامل ہیں۔ملٹری کا زیادہ ہے وہ اشرافیہ کو ڈرائیو کرتی ہےاور اشرافیہ کہیں نہ کہیں جاکر ان سےمعاہدے کرتے ہیں وہ معاہدے اس بات پر ہوتے ہیں کس طرح اپنے مفادات کو بچایا جائے، حالیہ بڑی مثال دیکھ لیں کہ عمران حکومت کو ہٹا کرن لیگ کی اتحادی حکومت آئی تو انہوں نے ایک بات کہی اور میاں نواز شریف بھی وہی بات کررہے ہیں کہ ہم نے اپنی سیاست کی قربانی دے کر ریاست کو بچایا ہے، ریاست کو بچانے سے مراد انہوں نے اپنے طبقے کے مفادات کو بچانے کی کوشش کی ہے۔

میرا تعلق ٹریڈیونین سے ہے،ابھی ذکر ہوا ہے حکومت نے کم ازکم اجرت 32ہزار روپے ماہانہ کردی ہے ،حالانکہ پاکستان کی فیکٹریوں میں صرف تین فیصد ایسے مقامات ہوں گے جہاں یہ تنخواہیں دی جاتی ہیں97 سے98فیصد کام کی جگہوں پرمزدوروں کو یہ تنخواہیں نہیں دی جاتیں،دوہزار اٹھارہ میں ڈالر 132 سے 134 روپے تک تھا آج 286 پر ہے، اگر ڈالر کی نسبت سے دیکھیں تو آج اجرت آدھی ہوگئی ہے۔

اس وقت میرے سوڈالر بنتے تھے آج وہ 70بھی نہیں بن رہے،ہمارے یہاں اس خطے کی سب سے زیادہ 39 سے 40فیصد مہنگائی ہے،بنیادی اشیا ٍخوردونوش پر شرح 60فیصد تک چلی گئی ہے۔ 2018 میں آٹا 33روپے کلو تھا اور آج وہی آتا150روپے ہے،جو لوگ اس زمانے میں تین کلو آتا 90 روپے میں لیتے تھے وہی بے چارے آج500روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں،باقی دیگر چیزیںعلیحدہ ہیں، دوائیں تین سو سے چارسوفیصد مہنگی ہو چکی ہیں،بجلی مہنگی ہوگئی ہے، اس طرح لوگوں کی روزمرہ کی زندگی میں خطرناک حد تک خرابی آچکی ہے،لوئرمڈل اور مڈل کلاس جو نوجوان ہیں جو فیکٹریوں میں کام کرنے والے ہیں ان کی اوسط عمر 30سے 35سال کی ہے۔

پڑھے لکھے مڈل کلاس نوجوانوں کوپاکستان کے کل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اسی لیے وہ پاکستان سے جارہے ہیں آپ برین ڈرین ہورہا ہے، سوال یہ ہے کہ ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا ہوگا، جو کرناچاہیے وہ بہت آسان ہے لیکن جنہوں نے یہ سب کچھ کرنا ہے وہ یہ نہیں کریں گے،وہ لوگ جانتے ہیں کہ وہ یہ کبھی بھی کرنا نہیں چاہتے اور جو لوگ کرنا چاہتے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ یہ ہوسکتا ہے تو ان کے پاس وہ طاقت نہیں ہے،  ایسے لو گ اپنی لیڈرشپ تیار نہیں کرسکے۔

پاکستان کی 60فیصد آبادی دیہاتوں میں آباد ہے، لینڈ ریفارمز کریں جو پاکستان کے علاوہ ہمارے ارد گرد سارے خطے میں پہلے ہی ہوچکی ہے، دفاعی اخراجات کی ضرورت نہیں ہے، یہ اخراجات تو اس خوف سے کیے جاتے ہیں کوئی دوسرا ہم پر حملہ کرے گا۔ اگر ہم اپنی سیاست اور خارجہ امور کو ٹھیک کرلیں تو پھر اس کی ضرورت نہیں پڑے گی، پڑوسی ملکوں سے تعلقات ٹھیک کریں۔

اس کی کئی مثالیں موجود ہے ،انڈیا اور چین کے درمیان کئی تنازعات موجود ہیں،لیکن ان اختلافات کے باوجود وہ ایک دوسرے سے تجارت کرتے ہیں دونوں کے درمیان 137 ارب سالانہ کی تجارت ہے۔کاروبار بھی ہورہا ہے اور اپنی اپنی بات بھی کررہے ہیں، پاکستان اپنی تجارت بڑھا سکتا ہے،ہماری ایک ارب کی ٹریڈ38ارب تک جاسکتی ہے۔ 

دفاعی ،صوبائی اور وفاقی اداروں کے اخراجات کو پانچ سال کے لیے کیپ کریں، لینڈریفارمز کریں ، اس طرح کے اقدامات سے ملک میں مسائل کافی حد تک قابو میں آسکتے ہیں، توانائی کےلیے سولر پر جائیں، ایک زمانے میں آسان اقساط پر پیلی ٹیکسیاں دی گئیں تھیں اسی طرح کی سولر سسٹم کے لیے کوئی اسکیم نکالیں، ہر گھر کو آسان اقساط پر بٖغیر سود کےسولر فراہم کردیں، بہت ساری بجلی پٹرولیم سے بناتے ہیں یہ اس کا متبادل ہے، ان سب چیزوں کے ساتھ ایک بہت بڑی گفتگو کی ضرورت ہے پاکستان میں ہردوسراشخص یہ کہتا ہے کہ انڈیا کے ساتھ دوستی کرو، لینڈریفارمز ہونی چاہیے، دفاعی اخراجات میں کمی کی بات کی جاتی ہے،لیکن وہ اس کا باقاعدہ اظہار نہیں کرنا چاہتا، میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے جو باتیں ہم انفارمل کرتے ہیں اسے فارمل طریقے سے کیا جائے تب ہی یہ سوسائٹی آگے جائے گی، بصورت دیگر جس جال میں پھنسے ہیں ہم اور آپ ہی اس کا نشانہ بنیں رہیں گے۔

جنگ:بھارت میں دو ہزار سولہ میں غربت کی شرح25فیصد تھی آج صرف دس فیصد ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی: ہمارے اعداو شمار کے مطابق پاکستان میں غربت کسی دور میں بھی کم نہیں ہوئی ،یہ اعدادوشمار عالمی بینک کے ہیں جو اپنی پالیسی کے دفاع کے لیےضرورت کے مطابق اعدادوشمار کو ڈھالتا ہے ۔ڈاکٹر شائق نے درست کہا ہے کہ غربت معاشی مسئلہ نہیں ہے لیکن ہم اس معاملے کو معاشیات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

غربت سماجی اور سیاسی ایشو ہے۔ ہر سال ایک بجٹ آتا ہے جس میں یہ طے کیا جاتا ہے، قوم کے وسائل کی تقسیم کس طرح ہوگی،کتنے پیسے کس کی جیب سے نکالے جائیں گے اور کتنے پیسے کس کی جیب میں ڈالے جائیں گے۔جس کا پلہ بھاری ہوتا ہے وہ اپنی جیب سے کم سے کم پیسے نکلواتا ہے اور دوسروں کی جیب سے زیادہ نکلواکر اپنی جیب میں زیادہ ڈلواتا ہے ہر بجٹ میں یہ ہی ہوتا ہے۔غربت ختم کرنے کی بات سب کرتے ہیں۔ پاکستان پاورٹی ایلی ویشن فنڈ بنایا گیا ہے،یہ بہت بڑا ادارہ ہے۔

ان کے عہدے دار سات ہندسوں سے زیادہ کی ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں۔ غربت کوئی شعبہ نہیں ہے کہ آپ ایک ادارہ بنائیں، اسے کچھ پیسے دے کرغربت ختم کردیں گے۔ مجھے بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام ڈیزائن کرنے کا شرف حاصل ہے۔جب ہم اسے ڈیزائن کررہے تھے تو ہر موقع پر صدر مملکت ،وزیراعظم اور کابینہ کو بتانا پڑتا تھا کہ BISP غربت کے خاتمے کا پروگرام نہیں ہے اس لئے کہ ہزار روپے دے کر غربت ختم نہیں کرسکتے۔ غربت صرف روزگار سے ختم ہوسکتی ہے اور روزگار معیشت کے آگے بڑھنے سے بڑھتا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ملکی معیشت بھی آگے بڑھ رہی ہو اور معیشت کے خاص شعبے زراعت اور صنعت آگے بڑھ رہے ہوں کیوں کہ روزگار ان ہی شعبوں سے ملتا ہے۔

غربت کی لکیر ایک لوشنل وے ہے اس میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر مجھے زندہ رہنے کے لئے روزانہ ایک کلو گندم چاہیے تو سال میں تین سو پینسٹھ کلو گندم کی ضرورت ہے۔ یہ کیلوریز کامعاملہ ہوتا ہے کہ زندہ رہنے کےلیے روزانہ اتنی کیلوریز چاہیے۔ تو جو365 گندم کی قیمت ہے اسے غربت کی لکیر بنادی جاتی ہے۔ لیکن انسان صرف گندم پر زندہ نہیں ہے زندہ رہنے کے لئے روٹی کے علاوہ دیگر ضروریات بھی ہوتی ہیں۔ اس کا اندازہ لگانے کے لیے بھی طریقے ہیں۔

پہلے تو غربت کی لکیر ہوگئی اور دوسرا، غربت میں شدت دیکھی جاتی ہے، ایک گھرانہ جو غربت کی لکیر کے نیچے ہے، یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ کتنا نیچے ہے، کچھ تھوڑا نیچے ہوتے ہیں اور کچھ زیادہ ہوتے ہیں ان تمام مراحل کو حل کرنے کے لیے مختلف پالیسی انسٹرومنٹ ہیں۔ غربت کی جو بھی نوعیت ہو اس کا تجزیہ کرنا ضروری ہوتا ہے کیوں کہ اس کے بعد ہی نمٹنے کے لیے پروگرام بنایاجاتا ہے ۔غربت کی وجوہات میں روزگار کانہ ہونا ہے ملک میں کاروباری سرگرمیاں نہیں ہیں، جو کارخانے تھے وہ بند ہوگئے۔

گاوں دیہاتوں میں ٹریکٹر آگئے مشینیں استعمال ہونا شروع ہوئیں،تو کام کرنے والے لوگ فارغ کردیے گئے۔ کارپوریٹ فارمنگ بہت زیادہ بے روزگاری پیدا کرتا ہے۔ دوسری غربت کی وجہ avoid able expenditure ہے۔ مثلا پینے کا صاف پانی نہیں ہے تو گھرانہ بیمار ہوجائے گا ۔تو ڈاکٹر اور دوائی پر پیسے خرچ ہوں گے، تو جو پیسےگھر پھل لے جانے کےلیے رکھے گئے تھے وہ دوائی پر خرچ ہوگئے، اسی طرح آپ نے کوئی کتاب خریدنی تھی وہ بھی نہیں خرید سکے،تو اس طرح کے بہت سارے اخراجات ہیں اور وہ اس لئے کہ ریاست نے اس کا انتظام نہیں کیا ہے۔ 

ریاست اگر صاف پانی مہیا کردے، پاکستان کے کسی حصے میں بھی چاہے وہ شہر ہویا دیہات کہیں بھی صاف پانی میسر نہیں ہے۔ ہمیں یاتو خرید کر بوتل کا پانی پینا پڑتا ہے یا ابال کراستعمال کرنا پڑتا ہے،پانی ابالنے کی بھی قیمت ہے،میں ایک زمانے میں سوات میں کام کررہا تھا، میں وہاں ایک بیمار کو دیکھنے گیا تو مجھے بتایا گیا پانی خراب تھا تومیں نے کہا کہ پانی ابال کر کیوں نہیں پیتے،تو جواب ملاپانی ابالنے کے لیے لکڑی خریدنی پـڑتی ہے اور اتنے پیسے نہیں ہیں۔ حکومت اگر صاف پانی ہی مہیاکردے توغریب کے یہ اخراجات کم ہوجائیں گے۔

میں سندھ حکومت میں تھایہ تجربہ دوہزار دس میں جب بہت زیادہ سیلاب آگیا تھا تو جب ہم آئی ڈی پیز کیمپ میں جاتے تھے، وہاں ہرجگہ پانی کے پیوریفیکیشن پلانٹ لگے تھے جو آر او پلانٹ کہلاتے ہیں۔ وہاں مقیم خواتین بتاتی تھیں کہ جب سے یہ مشین لگی ہے بچے بیمار نہیں ہورہے، توصاف پانی غربت دور کرنے کا بہت اہم ذریعہ ہے۔ اگر کسی کی تنخواہ دس ہزار ہے تو اگر ایک ہزار دوائی میں خرچ ہوتے ہوں گے وہ بچت ہوجائے گی۔موجودہ حالات بڑے گھمبیر ہیں ملک دیوالیہ ہوچکا ہے، میں قرضہ لوں اور اسے واپس نہ کرسکوں یہ ہی دیوالیہ ہونے کی تعریف ہے۔

پاکستان بینکرپٹ ہوچکا ہے ہم قرض لے کر صرف قرض واپس کرتے ہیں، اور اب اتنے قرضے ہوگئے ہیں، ڈیفالٹ کا اتنا رسک ہے،اب قرضہ دینے والے قرض بھی نہیں دے رہے، انہیں اس بات پر یقین نہیں کہ ان کے پیسے واپس ملیں گے،تو ہم اپنے اثاثے بیچ رہے ہیں،اب اس طرح گزارا کرتے ہیں لیکن اگر یہ سب بھی بک جائیں گے تو بعد میں کیا کریں گے، ہماری اگلی نسل کیا کرے گی،ہم انتہائی خطرناک موڑ پر ہیں ان حالات سے نمٹنے کےلیے جو طریقے اختیارکیے جارہے ہیں وہ بھی خطرناک ہیں، میں فوری طور پر دو چیزوں پر ذور دینا چاہوں گا، اگر کچھ بھی نہ ہو تو کھانا تو ضرور چاہیے اسے ہم فوڈ سیکورٹی کہتے ہیں، اس میں چار پانچ چیزیں زیادہ ضروری ہیں، گندم، دال، کوکنگ آئل، پیاز اور مصالحے،ہم نے اس ملک کا یہ حال کردیا ہے کہ گندم اپنی ضروریات کے لیے بھی پوری پیدا نہیں کرسکتے اسے بھی درآمد کرتے ہیں، دس سے پندرہ فیصد درآمد کرتے ہیں، دال نوے فیصد درآمد کرتے ہیں، کوکنگ آئل کا خام مال سوفیصد درآمد کرتے ہیں، تو جب کھانے پینے کی چیزیں باہر سے منگوائی جائیں گی اور ڈالر سو سے تین سو روپے ہوجائے گا تو مہنگائی تو ہونی ہی ہے۔

اسی لیے اشیا خوردونوش دیگر چیزوں کے مقابلے میں زیادہ مہنگی ہورہی ہے، اور اشیا خوردونوش کا مہنگا ہونے کا سب سے زیادہ اثر غریب پر پڑتا ہے،کیوں کہ غریب کی آمدنی کی سب سے زیادہ شرح کھانے پینے پر خرچ ہوتی ہے، جو بہت غریب ہوتے ہیں وہ اپنی نوے فیصد آمدنی خوراک پرخرچ کرتے ہیں کیوں کہ دیگر چیزوں کو تو وہ دیکھ ہی نہیں سکتے، کپڑے مانگ کر یا پھٹے ہوئے پہنتے ہیں، مڈل کلاس کا ذکر کروں عید کے دنوں میں کسی کے گھر گیا تھا وہ کراچی یونی ورسٹی کی لائبریری میں کام کرتی تھیں، ان کابیٹا آکر کہنے لگا میراجوتا چھوٹا ہوگیا ہے، تو انہوں نے اپنے بچے سے کہا تسمے نہ باندھو کیوں کہ ابھی جوتا نہیں خرید سکتے۔ ہمیں چاہیے یہاں پر گلوبلائزیشن اور نیولبرلزم کو قربان کرنا پڑےگا، اتنا رقبہ مخصوص کریں کچھ علاقہ گندم کے لیے مخصوص کریں تاکہ اپنی مکمل ضرورت کےلیے گندم پیدا کی جاسکے۔

ہماری ضرورت صرف پاکستان نہیں ہے ہمارا گندم افغانستان اور تاشقند تک جاتا ہے اور ہم اسے روک نہیں پائیں گے۔ تو ہمیں اپنی ضرورت میں پاکستان افغانستان اور تاشقند کو بھی شامل کرناپڑے گا اگر نہیں کریں گے تو گندم کی قلت پیداہوجائے گی۔تو جو گندم یہاں سے افغانستان اور تاشقند اسمگل ہوگا وہ دس سے پندرہ فیصد گند م ہمیں 300ڈالر کے مطابق کسی دوسری جگہ سے امپورٹ کرنا پڑےگا۔ زمین ہمارے پاس ہے خود کیوں نہ پیدا کریں۔

دالیں سو فیصد پیدا کرسکتے ہیں، ہمارے پاس ایک پورا خطہ ہے ،جیکب آباد، شہداد کوٹ،ڈیرہ غازی ٰخان کا علاقہ دالوں کی کاشت کے لیے بہت اچھا ہے۔ سن فلاور کےلیے بہت اچھی زمین کی ضرورت نہیں ہوتی زیادہ پانی بھی نہیں چاہیے ہمارے پاس زمین موجود ہے، سن فلاور کی کاشت سے ہم پام آئل کی درآمد روک سکتے ہیں۔ جب ہم بنیادی کھانے پینے کی چیزیں خود پیدا کریں گے تو وہ مہنگی نہیں ہوگی اور غربت میں کمی آئے گی۔

جنگ: آپ نے زرعی خود کفالت کا ذکر کیا، آرمی چیف کی زیرنگرانی ایک کمیٹی بنائی گئی ہےاس کے متعلق کچھ کہیں گے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی: یہ کمیٹی اثاثے بیچنے کےلیے فرنٹ ہے اس کا دوسرا کوئی مقصد نہیں ہے،کیوں کہ ہمارا پی آئی اے،اسٹیل مل اور دیگر انڈسٹری کوئی خریدنے کو تیار نہیں ہے،ہم باربار اسے بیچنے مارکیٹ میں جاتے ہیں لیکن کوئی خریدار نہیں ہے، لہذا اب ہم اپنی زرعی زمین بیچ رہے ہیں یہ اور بھی زیادہ خطرناک ہے،چین نے افریقہ میں بہت زیادہ زرعی زمینیں خریدیں ہیں،وہاں وہ ایسی چیزیں کاشت نہیں کررہے جو وہاں کے لوگ کھاتے ہیں، وہ ان چیزوں کی کاشت کررہے ہیں جس کی ضرورت چین میں ہے،ان زمین داروں سے معاہدہ ہے کہ سوفیصد پیداوار چین جائے گی لوکل مارکیٹ میں بالکل فروخت نہیں ہوگا۔

سب خود اندازہ لگالیں کہ اگر ہماری زمینیں ان کے قبضے میں چلی گئیں اور گندم کی جگہ سورگم پیداکررہے ہیں کیوں کہ چین میں اس کی زیادہ طلب ہے،اور جو مزدور وہاں کام کررہا ہوگا اسے گندم نہیں ملے گا،تو نتیجے میں ہمیں فوڈ سیکورٹی کے بہت بڑے بحران کا سامنا ہوگا۔ لہذا اس کی بھرپور مخالفت کی ضرورت ہے۔

جنگ: اس کے خاتمے کے لیے اٹھارویں ترمیم کافی ہے،دوسرا صوبوں میں غربت کی کیا صورت حال ہے؟

ڈاکٹرقیصر بنگالی: غربت بلوچستان میں سب سے زیادہ ہے،سب سنتے ہیں بلوچستان میں وسائل بہت زیادہ ہیں اور آبادی کم ہے،میں نے تین سال بحثیت مشیر وزیراعلیٰ بلوچستان کام کیا ہے، اس صوبے میں اتنے وسائل ہیں کہ وہاں ہر شخص کو دو نوکریاں دی جاسکتی ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ غربت اسی صوبے میں ہے بھوک کی کیفیت میں نے صرف بلوچستان میں دیکھی،فاقہ کشی کسی دوسرے صوبے میں نہیں ہے، پانی بھی نہیں ہے، میں گوادر میں تھا ایک دن میری ٹیم کے ایک فرد نے بتایا کہ اس کے گھر میں ڈاکا پڑگیا ہے،ڈاکا پڑنے کا مطلب مالی لوٹ مار اور بہت خطرناک لیتے ہیں۔

لہذا ہم بھی ڈر گئے تو اس نے بتایاکہ مالی لوٹ مار تو نہیں ہوئی اسکوٹر بھی موجود تھی لیکن وہ صرف پانی لے گئے۔ تو یہ بلوچستان کا حال ہے۔اندرو ن سندھ میں غربت ہے،تھرپارکر ،بدین، ٹھٹھہ،سجاول،سب سے زیادہ غربت ہے،بدین زرعی حساب سے خوش حال ترین علاقہ ہے،اس کے باوجود زیادہ غربت ہے۔

جہاں تک صوبائی خودمختاری کی بات ہے اس سے بہت کچھ ہوسکتا ہے، لیکن پاکستان کا مسئلہ ہے کہ فوجی ہویا سویلین ،بیوروکریٹ ،کاروباری وفاق ہویا صوبہ ہوکسی بھی لیول پر کوئی ویژن نہیں ہے، یہ سوچ کہیں نہیں کہ اس ملک کو کہاں لے کر جانا ہے،شرم ناک بات ہے کہ ہم ٹی وی پر ہاوسنگ کے اشتہارات دیکھتے ہیں اس میں بتایاجاتاہے کہ یہاں جنت نما گھر ہے،گالف کورس ،سوئمنگ پول ،جم سب کچھ ہے۔

لیکن ہمارے سروے کے مطابق کراچی لاہور دونوں شہروں میں ایک کمرے میں بیس لوگ رہتے ہیں، کئی بچوں نے بتایا کہ ہمیں نہیں پتا کہ ٹانگیں سیدھی کرکے کیسے سوتے ہیں کیوں کہ گھر میں اتنی جگہ ہی نہیں ہوتی۔تو ایک طرف یہ حا ل ہے اور دوسری طرف ہاوسنگ کے اشتہارات ،بحثیت قوم ہم نے اپنی سمت کھودی ہے ہم گم ہوگئے ہیں۔

جنگ: ہماری ریاست کس وجہ سے ناکام نظرآرہی ہے، سیاست ناکام ہے،معیشت ناکام ہے عوام کی منتخب حکومتیں نہیں رہتیں، اگر آتی ہیں تو کام نہیں کرپاتی ، ناکامی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

ناصرمنصور: ہرسوال کا جواب دینا بہت مشکل ہے۔ اب یہ ملک بن گیا ہے اسے ٹھیک کیسے کرنا ہےیہ سوال ہے۔ ملک میں جو حقیقی سیاسی قیادت تھی جو ایک پروسیس سے پیدا ہوئی اسے ختم کردیا گیا، جو قیادت مڈل کلاس ،لوئر مڈل کلاس سے آئی تھی میں بنگال کی بات کررہا ہوں انہیں اتنا تنگ کیا گیا کہ وہ الگ ہوگئے۔ یہاں جو لوگ اپنے حق کی بات کرتے ہیں ان کے لیے مشکلات کھڑی ہوجاتی ہے، بلوچستان کی مثال لیں ادھر چھٹا آپریشن ہورہا ہے،وہاں کی پوری ڈیموگرافی کمپوزیشن بدل دی ہے۔

ایک مقام دودھر سے چینی کمپنی تانبا اور مختلف چیزیں نکال رہی ہے،وہاں لوگوں نے یونین بنائی ،تو جواب میں سیکورٹی فورسز کے لوگ براہ راست سامنے آگئے، ورکرزکا تعلق جاموٹ فیملی سے ہے ہیں۔ مزدوروں کوبارہ گھنٹے کام کا دوسو روپے یومیہ دیاجاتا ہے، چین پاکستان میں نیاسامراج بنارہا ہے۔کیوں کہ جو آئین میں لکھا ہے ریاست اس پر عمل نہیں کرپارہی جو لکھ کر دیا ہوا ہے جیسے ریاست نہ بجلی دے رہی نہ پانی دے رہی ہے نہ تعلیم دے رہی ہے نہ علاج دے رہی ہے کچھ بھی تو نہیں دے رہی،مانگنے پر کبھی عمران خان کو آگے کردیاجاتا ہے کبھی نوازشریف کو کبھی کسی اور کو۔

جنگ: پاکستان میں سیاسی انجیئرنگ اور عدم استحکام کے سبب لاتعلقی اور بے حسی میں اضافہ ہورہا ہے لوگ مسائل پر روتے ضرور ہیں لیکن عملی اقدامات سے گریز کرتے ہیں حالیہ مثال لیں تو فلسطین میں مظالم پر بہت رونا دھونا ہورہا ہے لیکن کہیں بھی دس ہزار لوگ فلسطین کے لیے سڑک پر نہیں نکل سکے، دنیا کے کئی ملکوں میں تین سے چار لاکھ لوگ فلسطین کے حق میں سڑکوں پر نکلے ہیں،کسی بھی معاملے پر ہماری لاتعلقی بڑی وجہ بن رہی ہے، مہنگائی غربت ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن ہم اس پر متحد نہیں ہوتے، ہمارے پاس ایسا کوئی سسٹم ہی نہیں ہے جو کسی بھی مسئلے پر کراچی لاہور یا اسلام آباد تین لاکھ لوگوں کو سڑکوںپر نکال سکے۔

ہمیں بے حسی اور لاتعلقی ختم کرنی پڑے گی،مسئلے کے ساتھ روتے ہوئے جینا یہ ختم کرنا ہوگا آپ کو کھڑا ہونا ہوگا، اپنے حقوق کےلیے اپنےشعور کو بلند کرنا ہوگا، آج کا نوجوان اخبار نہیں پڑھ رہا نیوز نہیں دیکھ رہا جب کہ ووٹ دینا ہے تو کیسے درست فیصلہ کریں گے۔ تو پھر کوئی ایک مہرا کھڑا کرتا ہے اور سب پیچھے چل پڑتے ہیں بعد معلوم ہوتا ہے یہ تباہی کا راستہ تھا آگے بھی یہ ہی نظر آرہا ہے، یہاں یونی ورسٹیوں کی بھی بڑی ذمہ داری ہے ان موضوعات پر ایسے لیکچر دینے کی ضرورت ہے جو طلبا کوان کے نصاب سے ہٹ کر شعوردے، دنیا میں ہرجگہ ہوتا ہے۔

حاضرین کے سوالات

ڈاکٹر شفیق الرحمٰن: کچھ عرصے پہلے تک لیبریونین بہت مضبوط ہوتی تھیں وہ کوئی جدوجہد شروع کرتی تھیں سیاسی قوتیں ان کے پاس آنے پر مجبور ہوجاتی تھیں اب ایساکیوں نہیں ہے؟

ناصر منصور: اس میں دوچیزیں ہیں ایک ابجیکٹیو اور دوسرا سبجیکٹیو، ابجکٹیو اس طرح سے کہ جتنے ورکرز ہیں، ان میں سے97فیصد ملازمین کو تحریری معاہدہ نہیں دیاجاتا ان کے پاس کوئی تقررنامہ نہیں ہے،وہ پندرہ بیس سال کام کرنے کے بعد اسے کسی بھی دن فیکٹر ی کا چوکیدار گیٹ پر روک لیتا ہے اور کہتا ہے آپ اندر نہیں جاسکتے۔

وہ ملازم اس کے بعد انصاف کےلیے کسی سرکاری ادارے میں جائے تو اس کے پاس تو کچھ نہیں اور کمپنی کہتی ہے یہ تو ہمارا کبھی ملازم ہی نہیں رہا،یہ نئی صورت حال ہے، کنٹریکٹ سسٹم کے ساتھ تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ سسٹم ہے۔پاکستان بھر میں تھرڈ پارٹی سسٹم چل رہا ہے جب کہ قانون کے مطابق مستقل ملازمت کےلیے کنٹریکٹ ملازم نہیں رکھ سکتے۔

سبجیکٹیو بہت ساری چیزیں ہیں ،پاکستان میں جب بھی مارشل لا آیا تو اس نے سب سے پہلے مضبوط آرگنائزیشن کو طلبا یونین اور ٹریڈ یونین کو نشانہ بنایا اور پابندی لگائی ،اور ان کی مددگار سیاسی تنظیموں پرحملے کیے،پھر ٹریڈ یونین میں بھی بہت سارے لوگ ایلیٹ بن گئے ہیں۔پھر بین الاقوامی حالات بھی ہیں۔

دانیال: ہماری سیاست بھی تو بہت خراب ہے ہر جماعت اور لیڈر دوسرے کو بے ایمان قرار دیتی ہے

ڈاکٹر قیصر بنگالی: ہمارے جو بھی حکمران ہیں ان کاایک ہی مقصد ہے ان کا جو طبقہ ہے ان کی جو کلاس ہے ان کے مفادات کی حفاظت کی جائے عوام کو کچھ بھی نہ دیں۔ہم اپنے زمانے میں ہرطرح کے احتجاج کرتے تھے ۔آج کے طالب علم کسی چیز پر احتجاج نہیں کرتے جب کہ آپ کا مستقبل براہ راست نشانے پر ہے۔

جتنے ہم نے قرض لیے ہیں اور مسلسل لئے جارہے ہیں اسے نوجوانوں نے واپس کرنے ہیں اور جو اثاثے بک رہے ہیں تو کل آپ سب چینی ،سعودی اور عرب اماراتی کمپنی کے ملازم ہوں گے تو جوزیادتی کسی اور کے ساتھ ہورہی ہے مستقبل میں آپ بھی بھگتیں گے۔ پاکستان میں جتنی بھی چینی کمپنیاں کام کررہی ہیں اجرت اور مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔آپ کے پاس کمپیوٹر ہیں احتجاج تورجسٹر کرائیں۔لیکن اس سے پہلے آپ کو معلوم ہونا چاہیے یہ کیا ہورہا ہے۔

میں اکثر طالب علموں سے پوچھتا ہوں کہ آپ میں سے کتنے لوگوں نے اخبار پڑھا تو معلوم ہوتا ہے کسی نے بھی نہیں پڑھا، پھر پوچھتا ہوں پچھلے ایک ہفتے میں کسی نے پـڑھا تو معلوم ہوتا ہے کسی نے نہیں پڑھا،توجب آپ کو یہ ہی نہیں معلوم کہ ملک میں کیا ہورہا ہے تو آپ کیا احتجاج کریں گے۔مفروضہ میں نہیں جائیں ایک زمانے میں سی پیک کو گیم چینجر کہا جارہا ہے تھا لیکن میں نے کہا تھا کہ یہ گیم اوور ہوگا اور آج سی پیک کی باتیں ختم ہوچکی ہیں۔اب سی آئی ایف سی کی باتیں شروع ہوگئیں ہیں یہ بھی ختم ہوجائےگی، عوام کی آنکھ میں دھول ڈالنے کےلیے ایسے نعرے لائے جاتے ہیں، اور ملکی معیشت مسلسل بیٹھ رہی ہے آپ طلبا سے کہوں گا اپنا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو آواز اٹھائیں۔

حسن علی: ہمارے یہاں حکومتوں کو مدتیں کیوں پوری کرنے نہیں دیاجاتا؟

ڈاکٹر قیصر بنگالی: انڈیا جمہوریت مضبوط ہے وہاں انتخابات شفاف ہوتے ہیں وہاں دوسری جماعت نتائج کا چیلنج نہیں کرتی،کسی بھی نظام سے آیاجو بھی حکمراں ہوتا ہے وہ اس ملک کے سوشل کمپوزیشن، ایلیٹ اور اشرافیہ کی کمپوزیشن سب کی نمائندگی کرتا ہے،جہاں طاقت تقسیم ہو کسی کے پاس مناپلی نہیں ہےتو وہا ں کام ہوتے ہیں۔ 

لیکن جہاں پر ایک طبقہ حاوی ہوتا ہے تو وہ وسائل کو برابری کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہونے دیتا وہ سارا خود ہی رکھ لیتا ہے، پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ حکومت کرتا ہے اور پالیسیاں بھی اپنے لیے بناتا ہے،جب بھی کوئی وزیراعظم بنتا ہے اور اسے وہ اسائمنٹ ملتا ہے اور وہ کسی موقع پر اس کام سے سستی یا انکار کرتا ہے تو اسے ہٹا دیاجاتا ہے اسی لیے استحکام نہیں ہے، استحکام جب ہوگا جب وزیراعظم کو آکسیجن عوام سے مل رہی ہوگی۔

اسامہ احمد: ہمیں بیرونی ممالک سے امداد ملتی ہے تو اس کا فائدہ کیوں نہیں ہورہا ؟

ناصرمنصور: صحرا میں بالٹی بھر پانی پھینکنے سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، اس کے لیے ریاستی سطح پر ایک مکمل پالیسی کی ضرورت ہے، این جی اوز کےآنے سے غربت کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔

جنگ: روزگارکے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے بغیر غربت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔

ڈاکٹر شائق: کچھ امداد ملتی ہے لیکن وہ صرف کچھ کو ملتی ہے۔

جنگ: آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی پالیسیاں پاکستان کےمفاد میں ہے یا نہیں ہے؟

ناصر منصور: آئی ایم ایف کے ٹریک ریکارڈ کے مطابق انہوں نے کبھی بھی کسی بھی ملک سے غربت کا خاتمہ نہیں کیا یا اس سے نکالا ہو،یہ ادارے کسی نہ کسی طرح چلنے والے سسٹم کو زندہ رکھتے ہیں، پاکستان میں یہ ادارے نیو ایسٹ انڈیا کمپنی ہیں۔

جنگ: بہت لوگ روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جارہے ہیں اور اس دفعہ پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ پاکستان اپنا حج کا کوٹا پورا استعمال نہیں کرسکا اس پر کچھ کہنا چاہیں گے۔

ناصر منصور: کچھ عرصے پہلے چھ سات سولوگ یونان سے اٹلی جاتے ہوئے ڈوب گئے تھے اس میں 95فیصد نوجوان لوئر مڈل کلاس کے تھے۔ایسالگتا ہے ہمارے نوجوان پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ حل نہیں ہے کہ ادھر سے گھبرا کر دوسری جگہ چلے جائیں ،حل یہ ہے کہ سب نے مل کر ایک بڑی جدوجہد کرنی ہے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔

فرزین: ہم کس طرح اور کہاں احتجاج ریکارڈ کرائیں؟

جنگ: بجلی گیس اور دیگر چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے اس سے غربت مزید کتنی بڑھ سکتی ہے؟

ناصر منصور: سالانہ 50لاکھ افراد کا غربت کی لکیر کے نیچے جائیں گے، دو فیصد سے بھی کم شرح نمو دہے،ایک ایسی سوسائٹی جہاں تین فیصد آبادی میں اضافہ ہورہا ہے پچاس لاکھ لوگ غربت میں اور دو فیصد سے بھی کم شرح نمود ہے، بہت مشکل صورت حال ہے اس کا حال فوری طور پر سخت تبدیلی کی ضرورت ہے،ایلیٹ کلاس اپنے مفادات چھوڑنے کو تیار نہیں ہے، طاقتور لوگ کچھ بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔