کراچی(مطلوب حسین /اسٹاف رپورٹر)بینظیر اپنے والد سے مختلف تھیں،وہ جو ساری زندگی ان کے خلاف کمپین چلاتے بینظیر اسے معاف کردیتیں،انسانی حقوق ،صنفی امتزاج ،مذہبی اقلیت پر انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، بینظیر بھٹو اگر آج زندہ ہوتی تو جس نہج پر پاکستان آج کھڑا ہے اس نہج پر نہ ہوتا ،ان خیالات کا اظہار انہوں نے پانچویں ادب فیسٹیول پاکستان میں معروف صحافی زاہد حسین کی کتاب فیس ٹو فیس ود بینظیر کی رونمائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی اور شیریں رحمن ٰنے گفتگو کرتے ہوئے کیا ، اجلاس کی نظامت معروف صحافی غازی صلاح الدین نے انجام دیئے ، اس موقع پر مصنف زاہد حسین بھی موجود تھے،شیریں رحمن نے کہا کہ بینظیر اپنے والد سے مختلف تھیں وہ کہتی بھی تھیں کہ انکا سیاست کی طرف رجحان نہیں ہے، بینظیر کو پڑھنے لکھنے کا شوق تھا اور انکا خیال تھا کہ فارن سروسز میں کام کرکے ملک کی خدمت کریں گی لیکن حالات نے انہیں سیاسی لیڈر بنا دیا،محترمہ جب 2007 میں وطن واپس آئی تھیں تو انکو کہا گیا تھا کہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گی لیکن انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر فیصلہ کیا کہ وہ ضرور الیکشن میں حصہ اور پورے پاکستان کی نمائندگی کریں گی، ان کے دل میں ایک درد تھا پاکستان کا سوات میں پاکستان کا جھنڈا اتار کر طالبان کا جھنڈا بلند تھا اور کوئی ان کو چیلنج کرنے کو تیار نہیں تھا لیکن بینظیر بھٹو وہ واحد لیڈر تھیں جنہوں نے یہ کہا کہ میں پاکستان کو بچائوں گی ہم پاکستان کو بچائیں گے اور انہوں نے اسی بات کی قیمت ادا کی ۔رضا ربانی نے کہا کہ سیاسی لیڈرز کے انٹرویوز ہوتے ہیں اور وہ چھپتے بھی ہیں جب آپ اس کتاب کو پڑھیں تو اس دور کے سیاسی لیڈروں کی تاریخ کی عکاسی ہے لیکن بد قسمتی سے آج ہمیں کوئی ایک لیڈر بھی انکی طرح نہیں ملتا،مصنف زاہد حسین نے کہا کہ میں نے محترمہ کے دونوں ادوار حکومت میں ان کی پالیسی پر سخت تنقید کی لیکن انہوں نے کبھی مجھے انتقا م کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ ہر تنقید کے بعد بینظیر مجھے سے بات کرتی اور جب انہیں احساس ہوتا تو وہ اپنی غلطی کا اعتراف بھی کرتیں۔