کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ “ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ میں ایک پندرہ سال پرانے قتل کیس میں ملزم کی حوالگی سے متعلق اہم سماعت ہونے جارہی ہے، یہ سماعت ایسے قتل کیس سے متعلق ہے جس میں ملزم کا سراغ ریاست کے بجائے خود مقتول کی بیٹی نے بارہ سال کی محنت کے بعد لگایا ہے،مقتول محمد احمد امجد کی بیٹی ماہم امجد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کوئی بیٹھا ہو تو فارن آفس اسے بیوقوف بناسکتا ہے مگر میں خود دبئی کی رہائشی ہوں، دبئی میں جو جج کیس دیکھ رہے ہیں ان سے مل چکی ہوں، ان کے مطابق پاکستانی سفارتخانے میں آج تک اس کیس سے متعلق کوئی میٹنگ نہیں ہوئی،وزارت داخلہ سے درخواست تھی کہ تمام دستاویز کی پی ڈی ایف ہم سے بھی شیئر کردی جائے تاکہ میں ذاتی طور پر جاکر دکھادوں، میں نے متحدہ عرب امارات کی منسٹری آف جسٹس جاکر جب انہیں فائل دکھائی تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں اس طرح نہیں دکھائی گئی۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے مزید کہا کہ دو دن بعد سندھ ہائیکورٹ میں ایک پندرہ سال پرانے قتل کیس میں ملزم کی حوالگی سے متعلق اہم سماعت ہونے جارہی ہے، یہ سماعت ایسے قتل کیس سے متعلق ہے جس میں ملزم کا سراغ ریاست کے بجائے خود مقتول کی بیٹی نے بارہ سال کی محنت کے بعد لگایا ہے، وہ گزشتہ تین سال سے درخواست کررہی ہے کہ میرے باپ کے قاتل کو وطن واپس لایا جائے تاکہ وہ قانون کا سامنا کرسکے اور انصاف ہوسکے، مگر اب تک ریاست اس معاملہ پر ناکام نظرآئی ہے، مقتول کی بیٹی نے اس ناکامی پر نہ صرف اس کمپنی پر سنگین الزامات لگائے ہیں جہاں مقتول کام کرتا تھا اور جہاں اس کا قتل ہوا تھا بلکہ وزارت خارجہ بھی سوالات اٹھائے ہیں، یہ کیس اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے سابقہ ریجنل منیجرمحمد احمد امجد کے قتل کا ہے، محمد احمد امجد کا قتل 26اگست 2008ء کو ہوا مگر اس قتل سے پہلے ہی اسٹیٹ لائف انشورنس کے اندر بہت کچھ چل رہا تھا، کمپنی کی اندرونی خط و کتابت کا جائزہ لینے کے بعد یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر ادارہ وقت پر ایکشن لے لیتا تو شاید یہ واقعہ ہی نہ ہوتا یا کم از کم کمپنی کے دفتر میں یہ واقعہ نہیں ہوتا، خط و کتابت سے واضح ہوتا ہے کہ محمد احمد امجد نے کمپنی کے سابقہ سیلز مینجر اور اس کیس کے ملزم سید تقی حیدر شاہ کے خلاف مختلف شکایات کی تھیں مگر اس کے باوجود کمپنی کے دفتر کے اندر ہی ان کا قتل کردیا گیا،26اگست 2008ء کو محمد احمد امجد اپنے دفتر میں بیٹھے تھے تو ایک شخص نے دفتر میں داخل ہوکر ان پر دس گولیاں چلائیں اور بغیر کسی رکاوٹ باہر چلا گیا، اسٹیٹ لائف انشورنس کے تین ملازمین نے گواہی دی کہ محمد احمد امجد کو گولیاں مارنے والا شخص تقی حیدر شاہ تھا، تینوں گواہان کے بیانات سے الزام سامنے آتا ہے کہ تقی حیدر شاہ پستول لے کر ریجنل مینجر کے دفتر میں داخل ہوا لیکن اس حقیقت کے باوجود اسے روکنے کیلئے کوئی سیکیورٹی نہیں تھی کہ قتل سے کچھ دن پہلے ہی محمد احمد امجد نے انتظامیہ کو اپنی جان سے لاحق خطرات سے آگاہ کردیا تھا، اس واقعہ کے بعد تقی حیدر شاہ کیخلاف مقدمہ درج کرلیا گیا مگر اس کی گرفتاری نہیں ہوسکی، قتل ہونے کے بارہ سال تک ملزم کا کچھ پتا ہی نہیں چلا، بظاہر نہ ریاست نے کوئی دلچسپی ظاہر کی اور مقتول کے خاندان کے مطابق نہ ہی اسٹیٹ لائف انشورنس نے اس کیس میں کوئی دلچسپی لی۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ محمد احمد امجد کا جس وقت قتل ہوا ان کی بیٹی ماہم امجد کی عمر صرف پندرہ سال تھی، پندرہ سال کی عمر سے ہی وہ اپنے والد کے قتل میں ملوث ملزم کا سراغ لگانے کی کوشش کرتی رہی، پانچ سال پہلے ماہم امجد متحدہ عرب امارات شفٹ ہوگئیں اور وہاں مارکیٹنگ اور ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے جڑ گئی، اکتوبر 2020ء میں روٹین سرچ کے دوران ماہم امجد کو ایک لنکڈ ان پروفائل نظر آئی جس پر تقی حیدر شاہ کا نام لکھا ہوا تھا۔