اگر ہمارے کچھ غیر سیاسی دوستوں کاخیال ہے کہ کسی کو انتخابی عمل سے دور کر کے ،نااہلی یا سزا کی تلوار چلا کر یا لٹکا کر اس کی سیاست ختم ہو جائے گی تو اب تک ہماری سیاست میں یہ مائنس کا فارمولا ناکام ہی رہا ہے اور اگر کوئی فارمولا کامیاب رہا ہے تو وہ جمہوری انداز میں ایک حکومت سے دوسری اور ایک وزیر اعظم سے دوسرے کو پر امن انداز میں اقتدار کی منتقلی کا فارمولا ہے۔ بھٹو سے عمران تک کا جائزہ لے لیںاگر کوئی زور زبردستی سے آئوٹ کیا جائے تو وہ امر ہو جاتا ہے اور کارکردگی پر ناکام ہو تو واپسی مشکل ہو جاتی ہے۔ 2008 میں عام انتخابات کے نتیجے میں پی پی پی کامیاب ہوئی اور پہلی بار کسی جماعت نے اپنے پانچ سال پورے کیے اور 2013میں عام انتخابات کے ذریعہ ایک اور حکومت تشکیل پائی۔ پی پی پی کا پنجاب میں ووٹ بینک تقریباً ختم ہو کر رہ گیا۔ اس سے پہلے اس جماعت پر جتنے بھی تجربات ہوئے اس نے پارٹی کو مضبوط کیا مثلاً بھٹو کو پھانسی دینے سے بھٹو ’زندہ‘ ہو گیا۔ پی پی پی سے انتخابی نشان تلوار لے لیا گیا تو ووٹوں کے تیر چلنے لگے۔ پارٹی توڑی گئی، بڑے بڑے نام الگ ہوئے مگر وہ سب سیاسی بونے ثابت ہوئے لہٰذا ہر طرح کا مائنس فارمولا ناکام ہوا۔ نقصان صرف اتنا ہوا کہ 11سال ایک آمر نے اپنی انا کی تسکین کی خاطر اور ایک جماعت کو اقتدار اور سیاست سے باہر رکھنے کی خاطر ہر حربہ اپنایا یہاں تک کہ معاشرہ تقسیم کر دیا مگر آج بھی لوگوں کو 4اپریل یاد ہے 17اگست نہیں۔
جنرل ضیاء کی باقیات نے بعد میں کئی سیاسی فارمولے اپنائے مگر اس سے سیاست کو تو نقصان ہواہی جمہوریت بھی’ جھرلو جمہوریت‘ بن کر رہ گئی۔ لاڈلے بنانے کی فیکٹری لگ گئی مگر ہر پیداوار خود بنانے والوں کے گلے پڑ گئی۔2013میں الیکشن ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوئی اور نواز شریف پر امن منتقلی اقتدار کے ذریعہ وزیر اعظم بن گئے مگر 2008سے 2013کے درمیان ایک تیسری سیاسی قوت ابھر کر سامنے آگئی جس کا نام پاکستان تحریک انصاف تھا۔ دونوں بڑی جماعتوں نے اسکا سیاسی تقابلی جائزہ لیے بغیر اسےمحض ایجنسیوں کی سازش قرار دیا۔ پی پی پی یہ سمجھ کر خوش ہوئی کہ یہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچائے گی مگر 2013ءمیں پتا چلا کہ وہ پی پی پی کو پنجاب میں کھا گئی۔آج پی پی پی کے بہت سے دوست یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ پی ٹی آئی کو ایجنسیوں کی حمایت ایسے ہی حاصل رہی جیسی مسلم لیگ (ن) کو مگر اسکی مقبولیت اور ابھرنے کی وجوہات میں کم از کم تین بنیادی عوامل شامل رہے۔ (1) عمران کی شخصیت کا سحر کرکٹ کے ہیرو سے لے کر سوشل ورکر تک۔ (2) سیاست میں بڑی تعداد میں نوجوانوں کا آنا جن میں سے زیادہ تر نے ٹی وی اسکرین پر عمران کو سیاست میں آنے سے پہلے بھی دیکھا ہوا تھا کامیاب کپتان کے طور پر۔ (3) پرانے لوگوں کی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی سیاست سے مایوسی مثلاً پی پی پی کے پنجاب کا ووٹر اور کارکن بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مایوس ہو گیا تھا۔(4) پی ٹی آئی اور عمران خان کا مسلسل شریفوں اور زرداری کو تنقید کا نشانہ بنانا۔
سوال یہ بھی اہم ہے کہ اس سب کے باوجود ایجنسیاں مسلم لیگ (ن) کو ختم نہ کر سکیں۔مسلم لیگ (ن) کاجنم 1988میں سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی برطرفی کے بعد ہوا جس میں جنرل جیلانی کے علاوہ جنرل حمید گل کا بھی خاصہ عمل دخل تھا۔ گل صاحب جب شریفوں سے مایوس ہوئے تو انہوں نے عمران کو اپنی جانب راغب کیا۔مگر مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف شہباز شریف کی قیادت میں پنجاب میں مسلسل کامیابی دیگر وجوہات کی بنا پر بھی حاصل کی۔ انہوں نے جاگیردارانہ سیاست کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ طرز سیاست سے کاروباری طبقے کو متاثر کیا۔ خود بائیں بازو کا ایک بڑا طبقہ ان کے ساتھ ہوگیا۔ موٹر وے اور میٹرو جیسے پروجیکٹ نے مڈل کلاس کو متاثر کیا۔ 1993ءکے بعد نواز شریف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ، بھارت کے ساتھ پر امن تعلقات اور بعض معاشی اقدامات کی بدولت ۔ پاکستان تحریک انصاف 2013 ءمیں اور 2018ء میں بھی اس پوزیشن میں نہ آ سکی کہ اپنے بل بوتے پر حکومت بنا سکے۔ لہٰذا 2018ءسے پہلے نواز شریف کی نااہلی بھی پی ٹی آئی کو وہ کامیابی نہ دلا سکی۔ بلوچستان میں ’باپ‘ بنائی گئی۔ پہلے ایم کیو ایم کی سیٹیں پی ٹی آئی کو دی گئیں اور پھر ان سے یہ بھی کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت میں جائو۔
نواز شریف کو زور زبردستی نکالا گیا تو وہ پھر واپس آ گیا مگر اس دوران عمران مقبولیت کی بلندی پر پہنچ گیا خاص طور پر جس طرح اسے نکالا گیا ۔عمران جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے تنازع کا شکار ہوا اصولی طور پر بحیثیت وزیر اعظم یہ اس کا حق تھا کہ کسی کو بھی آرمی چیف تعینات کرے اور کسی کو بھی اس کے عہدہ سے برطرف یا ٹرانسفر کرے۔ میاں صاحب اور مسلم لیگ (ن) عمران کے دور میں پنجاب میں زیادہ مقبول تھی جب کہ شہباز شریف اور پی ڈی ایم کے 16ماہ میں ان کا گراف نیچےچلا گیا اور عمران ، پی ٹی آئی کا اوپر۔ یقین نہ آئے تو پچھلے پانچ سال کے دوران ہونیوالے ضمنی الیکشن کے نتائج دیکھ لیں۔ 2018 سے مارچ 2022 تک اور اسکے بعد سے آج تک۔ اب اگر شہباز شریف خود یہ اعتراف کریں کہ ہم نے اپنی سیاست قربان کر دی تو قربانی کا بکرا اس وقت کون بن رہا ہے کس کو آزاد اور غیر جانبدارانہ الیکشن ہونے کی صورت میں واضح شکست نظر آ رہی ہے لہٰذا مائنس عمران ہی نہیں ہے ان کیلئے مائنس’ بلا‘ بھی چاہیے۔
کرکٹ میں ’’اسپاٹ فکسنگ‘‘ نہ چل سکی تو سیاست میں کیسے چلے گی۔ خدارا یہ سلسلہ بند کر دیں۔ کبھی مارشل لا، کبھی مائنس ون، کبھی مائنس تین ، کبھی تلوار نہ چلی تو تیر آ گیا۔ کبھی تیر سے مایوس ہوئے تو شیر لے آئے۔ شیر نے جنگل کے بجائے ملک کا بادشاہ بننے کی کوشش کی تو بلے کو میدان میں اتار دیا۔ یہ سارے کام جمہور پر چھوڑ دیں وہ شیر لائیں۔ تیر کو آزمائیں یا بلا چلائیں۔ الیکشن 8فروری 2024ءکو آزاد غیر جانبدارہونے دیں۔ الیکشن سے قبل نتائج کا اعلان نہ کریں جیسا کہ اس وقت ابتدائی نتائج ترتیب دیئے جا رہے ہیں کہ کس کو اِن کرنا ہے کس کو آئوٹ۔