• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا نعمان نعیم

(گزشتہ سے پیوستہ)

پانی نفس حیات کی بنیاد ہے اور یہی چیز اس کے اہم ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:’’اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا، پھر یہ (کفار) ایمان کیوں نہیں لاتے۔‘‘( سورۃ الانبیاء: ۳۵)’’اور اللہ تعالیٰ نے ہر چلتے پھرتے جاندار کو پانی سے پیدا فرمایا ہے۔‘‘( سورۃالنور)

اس زمین کا دوتہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ پھر اس پانی کا سب سے زیادہ %۹۷ حصہ سمندروں کی صورت میں موجود ہے۔ %۲ برف کے پہاڑ ہیں، جن سےبرف باری اور بارش ہوتی رہتی ہے، ساتھ ہی درجہ حرارت بڑھنے کی بدولت یہ پانی دریاؤں اور نہروں کی صورت میں خشکی پر لانے کےلیے استعمال ہوتا ہے اور پھر زیر زمین پانی ہی انسانوں کو سب سے زیادہ کام آتا ہے۔پانی کا فطری طور پر ایک خاص رنگ و بو اور ذائقہ ہے، جب مضر صحت مادہ کی بعض اشیاء پانی کے اس فطری خواص کو بدل دیں تو یہ "آلودہ پانی" کہلاتا ہے۔ آبی آلودگی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، جن کے باعث منہ پر رکھا ہوا گلاس اور بپھرا ہوا سمندر دونوں آلودہ ہونے میں برابر ہو سکتے ہیں۔ مٹی، ریت اور کچرے کی وجہ سے قدرتی طور پر پانی آلودہ ہوتا ہے۔ 

اسی طرح انسانی کسب کے نتیجے میں بھی آبی آلودگی پھیلتی ہے مثلاً صنعتی، حیواناتی اور انسانی فضلہ جات کو آبی گزر گاہوں اور نہروں میں پمپ کیا جاتا ہے، جو پانی کی آلودگی کا اہم سبب ہے۔ زرعی اور کیمیاوی ادویات اور کیمیکلز پانی کو آلودہ کرتے ہیں۔ سمندری آلودگی کا سبب خام تیل اور دیگر استعمال شدہ چیزوں کا سمندر میں پھینکنا ہے۔یہ تمام چیزیں مل کر پانی کے فطری خواص کوختم کردیتی ہیں ،نتیجے میں پانی صحت اور انسانی استعمال کےلیے بےحد مضر ہوجاتا ہے۔ 

آنحضرت ﷺکی مبارک تعلیمات میں اس آبی آلودگی کا سدباب کرنے کا پورا سامان موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ہدایات پر عمل کیا جائے۔حضورﷺ نے فرمایا :’’مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں: (۱)پانی،(۲) گھاس،(۳) آگ۔‘‘(سنن ابن ماجہ)

اسی طرح پیاسے کو پانی سے محروم رکھنے کو قابل مؤاخذہ جرم قرار دیتے ہوئے فرمایا:’’جو شخص اپنا باقی ماندہ پانی یا باقی ماندہ گھاس روکے رکھتاہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل سے محروم کردے گا۔‘‘در حقیقت زمین کا درست استعمال اور پانی کی حفاظت اور حیوانات کے ساتھ حضورﷺ کا حسن برتاؤ تواضع ، عاجزی وانکساری کی بہت واضح دلیل ہے اوریہ ماحولیات کی حفاظت کی بھی واضح دلیل ہے۔

صوتی یا آواز کی آلودگی کا تعلق سننے اور انسانی سماعت سے ہے۔ سماعت اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں سے ہے کہ انسانی پیدائش کے بعد سب سے پہلے جسے شمار کیا گیا ہے، وہ سماعت ہے،چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:’’اور دیئے تم کو کان اور آنکھیں اور دل، تاکہ تم احسان مانو۔‘‘(سورۃ النحل:78)

صوتی آلودگی کا پریشر اور تسلسل انسانی اعصاب اور اس کی جسمانی توانائیوں کو یک سر متاثر کرتا ہے۔ بسا اوقات انسان اس صوتی آلودگی کی بدولت معذور ہوجاتا ہے۔قرآن نے صوتی آلودگی کو ایک منفرد انداز میں نمایاں کیا ہے ،چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:’’اور نیچی کر آواز اپنی بے شک ،بری سے بری آواز گدھے کی آواز ہے ۔‘‘(سورۃ لقمان: ۱۹)

اسلام نے صوتی آلودگی کو کم کرنے کا کتنا اہتمام کیا ہے کہ اونچی آواز میں بولنے کے بجائے خود فضول بولنے کو بھی ناگوار تصور کیا گیا ہے اور سکوت و خاموشی کو پسندیدہ عمل شمار کیا گیا ہے،جس طرح آپ ﷺنے فرمایا: ’’جو خاموش رہا، نجات پاگیا۔‘‘

ضرورت سے زیادہ بلند آواز سے بولنا بھی ایذا رسانی كکی ایک صورت ہے، حتیٰ کہ قرآن کریم کی تلاوت جیسی عبادت كکو بھی ضرورت سے زیادہ بلند آواز میں ناپسندکیا گیا ہے جس سے دوسروں کی عبادت میں خلل آئے یا تکلیف کا باعث ہو۔

’’حضرت ابو قتادہؓ روایت کرتے ہیں : حضور اکرم ﷺنے حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے فرمایا : (رات کو) آپ کے پاس سے میرا گزر ہوا تو آپ ہلکی آواز میں تلاوت فرما رہے تھے، تو حضرت ابو بکر صدیق ؓنے فرمایا : میں اس (ذات) کو سناتا ہوں جس سے میری سرگوشی رہتی ہے، تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : (آواز کو) تھوڑا سا بلند کر دو، اور حضرت عمرؓ سے فرمایا : آپ کے پاس سے بھی میرا گزر ہوا تو آپ بہت بلند آواز میں تلاوت فرما رہے تھے، تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا : میں سوتے کو جگاتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں، تو حضور اکرم ﷺنے ان سے فرمایا : (اپنی آوازکو) تھوڑا پست کر دو۔‘‘(جامع ترمذی)

نبی کریم ﷺ نے آواز کو عام حالات میں بھی نیچا رکھنے کی تعلیم فرمائی ہے اور اس بات کی اس حد تک اہمیت مد نظر رہی ہے کہ وعظ و نصیحت میں بھی آواز کو پست رکھنے کی تاکید فرماتے ہیں:’’حضرت ابونضرۃؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مدینہ کے واعظ سے کہا : اپنی آواز کو شرکائے مجلس کے سامنے پست رکھو، اور ان سے وعظ و نصیحت کرو جو آپ کے سامنے موجود ہیں، اگر وہ آپ سے چلے جائیں تو وعظ و نصیحت کو روک دو، اور دعا میں الفاظ کی بناوٹ (تک بندی) سے دور رہو۔‘‘

ماحو لیات کا ایک اہم مسئلہ جنگلی حیات کا تحفظ بھی ہے۔ اس حوالے سے نبی اکرم ﷺنے ہمیں سکھایا ہے کہ ہمارے ماحول میں موجود مخلوقات ہماری طرح کی مخلوقات ہیں جو اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔ اللہ نے ان کے ہم پر حقوق مقرر فرمائے ہیں۔ ان کا قتل اور ان کا اتلاف کسی معتبر مصلحت کے بغیر جائز نہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور نہیں ہے کوئی چلنے والا زمین میں اور نہ کوئی پرندہ کہ اڑتا ہے اپنے دو بازوؤں سے مگر ہر ایک امت ہے تمہاری طرح۔‘‘(سورۃ الانعام:38)

ایک مقام پر فرمایا گیا’’تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمان میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے، سورج ، چاند ، تارے، پہاڑ ، درخت ، جانور اور بہت آدمی اور بہت ہیں کہ ان پر ٹھہر چکا عذاب۔‘‘(سورۃ الحج:18)

یہ آیات اس طرف ہماری رہنمائی کرتی ہیں کہ انسان چوں کہ اسی ماحول کا حصہ ہے، اس حیثیت سے اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دوسرے ماحولیاتی عناصر کی حفاظت کرے اور انہیں تلف ہونے سے بچائے۔ قرآن مجید کی دوسری آیات سے بھی یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ماحولیات کے دوسرے عناصر کو بھی اس کے تابع بنا دیا ہے، جیسے: سورج، چاند اور حیوانات وغیرہ۔ انسان پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی ان پر بے شمار نعمتوں کا شکرانہ ہوگا۔

آنحضرتﷺ کی مبارک زندگی تمام انسانوں کی ابدی کامرانی کی ضامن ہے اور زندگی کے تمام مسائل میں آپ ﷺنے اپنی امت کو بہم ہدایت کا سامان مہیا کیا ہے۔ماحولیاتی آلودگی جدید دور کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے۔ اخبارات، جرائد، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، ادارہ جات اور انجمنیں اس کی آگہی اور سدباب پر اپنے تحرکات لے رہی ہیں۔ تاہم ایک مسلمان اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے سچے امتی کی حیثیت سے ہمیں سب سے پہلے قابل وثوق انداز میں آپ ﷺکی تعلیمات کو جاننا اور اس پر عمل کرنا چاہئے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پاک : بلاشبہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ (اسوۂ حسنہ)ہے۔ پر تعمیل کرتے ہوئےمجموعی آلودگی کے تدارک کو تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ جس میں مسئلہ آلودگی، اس کی اہمیت، تعارف اور اقسام کو بیان کرنے کے بعد تعلیمات نبوی ﷺمیں موجود اس کا حل بیان کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ امت مسلمہ اور اقوام عالم ان نبوی تعلیمات سے بھرپور انداز سے مستفید ہوں گے۔

نیز اسلام نے جہاں ماحولیات کو آلودگی سے بچانے کے اقدامات کئے ہیں، وہیں آلودہ ماحول سے انسانوں کی حفاظت کی خاطر پر حکمت اعمال کو انسانوں کی عبادات اور عادات میں شامل کردیا ہے جن کی وجہ سے انسان آلودگی کے مضر اثرات سے محفوظ رہتا ہے۔ وضو کی فضیلت بیان کی گئی ہے ، عموماً تمام نمازی روزانہ پانچ مرتبہ وضو کرتے ہیں، اور ہاتھ دھونا ، ناک صاف کرنا وضو کے اعمال میں سے ہے، ہاتھ دھونا ماہرین کی تحقیق کے مطابق بہت ہی مفید عمل ہے اور اس کی وجہ سے انسان بہت سے نقصان دہ جراثیم اور آلودگی کے اثرات سے محفوظ ہوجاتا ہے، اسلام نے ہاتھ دھلنے کے عمل کو مسلمانوں کی زندگی میں جامعیت کے ساتھ رکھ دیا ہے، وضو میں ، کھانے سے قبل اور کھانے کے بعد ،قضائے حاجت کے بعد مٹی یا صابن سے ہاتھ دھونے کی اسلام تعلیم دیتا ہے ، اس طرح دن میں کئی بار ایک مسلمان ہاتھ دھو کر آلودگی سے متاثر ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔ 

اس عمل سے بھی انسان فضائی آلودگی کے اثر سے محفوظ رہتا ہے ، ماہرین کے بقول انسان ناک صاف کرتا ہے تو اس کی وجہ سے آلودگی صاف ہوجاتی ہے اور اس کی سانس کے ذریعے اس کے جسم میں داخل نہیں ہوپاتی۔ نیز کھانے پینے کی چیزوں اور ان کے برتنوں کو ڈھک کر رکھنا اسلام میں مستحب ہے ،اس میں بھی یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ ڈھکے ہونے کی وجہ سے یہ چیزیں آلودگی سے محفوظ رہیں گی ۔

بہرحال فضائی آلودگی ، زمین کی آلودگی اور آبی آلودگی کے پس منظر میں اسلامی تعلیمات کے یہ چند نمونے ہیں،جنہیں اختیار کرنے سے یقیناً ان آلودگیوں کی بحث ہی ختم ہوجائے گی،جن کو آج موضوع بحث بنایا گیا ہے،اسی طرح اسلامی تعلیمات میں ان آلودگیوں کے علاوہ دیگر آلودگیوں پر بھی روک لگائی گئی ہے۔ 

جیسے کہ صوتی آلودگی وغیرہ ۔شور وغل اور چیخ وپکار سماعت کے لئے نقصان دہ ہیں ،یہ اعصاب وجوارح کو تھکاتے ہیں ،عقل وفکر کو مبتلائے تشویش کرتے ہیں ،سکون وطمانیت کو ختم کرتے ہیں ، نیند کو خراب کرتے ، لوگوں کو بے خوابی سے دوچار کرتے ہیں ، اور عام انسانی زندگی پر منفی اثرات ڈالتے ہیں، بلکہ مریضوں ، بچوں اور یکسوئی کے ماحول میں علم و تحقیق کا کام کرنے والوں کے لئے تو بہت ہی بے سکونی اور کرب والم کا باعث بنتے ہیں ، شور وغل اور ہنگاموں کی ان خطرنا کیوں کے باوجود موجودہ زمانے میں اس کے اسباب بہت ہوچکے ہیں ، کار خانوں میں بلند آواز سے چلنے والی مشینوں ، راستوں پر دوڑنے والی گاڑیوں، ٹرینوں، تعمیراتی کاموں میں استعمال کی جانے والی مشینوں ،لاؤڈ اسپیکر ،ٹیلی ویژن، وغیرہ کی آواز نے موجودہ زمانے میں شہری ماحول کو صوتی آلودگی میں مبتلا کردیا ہے ، اور وہاں کے رہنے والوں کو شور وہنگامے سے پیدا ہونے والے قلق واضطراب سے ہمکنار کردیا ہے ،جس کی وجہ سے بہت سے سکون کے متلاشی شہر کے بجائے دیہاتوں کی رہائش کو ترجیح دے رہے ہیں۔

اسلام تکلیف دہ ہنگاموں اور شوروغل کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور اس نے ماحول کو معتدل رکھنے کے لئے آواز میں اعتدال کی تعلیم دی ہے، تاکہ شور وہنگامے کی کیفیت پیدا نہ ہو، اور کسی کی آواز کسی کے لئے باعث اذیت نہ ہو ۔یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے ان تمام ترآلودگیوں پر روک لگائی ہے، اور ایسے جامع احکام اور تعلیمات دیے ہیں ،جن سے ہر قسم کی ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہوتا اور پاک صاف ماحول اور معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

اقراء سے مزید