• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ کے دامن پر دھبہ، آئین کی غلط تشریح کی، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت بحالی کی درخواستیں مسترد کردیں اس پر جیو کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا بھی ہندوتوا کا حصہ بنی ہے،کشمیری اس پر آواز بلند کریں گے.

انڈین یہ سوچ رہے ہیں کہ ہمیں بھی کشمیریوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہئے جو اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ غزہ میں کر رہا ہے، فیصلہ انڈین سپریم کورٹ کے دامن پر دھبہ ہے انہوں نے آج اپنے آئین کی غلط تشریح کی ہے.

اقوام متحدہ کی قرارداد پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے وہ اپنی جگہ برقرار ہے ،خصوصی نشریات میں تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ ،سید محمد علی،حافظ احسان احمد،اور ملیحہ لودھی نے اظہار خیال کیا۔

سیکورٹی ایکسپرٹ ڈاکٹر قمر چیمہ نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ سے یہی فیصلہ متوقع تھا۔

 پچھلے تقریباً پانچ سال سے کشمیریوں کے پاس حقوق نہیں ہیں۔ عالمی تنازع ہے جو اقوام متحدہ کے ایجنڈے کے اوپر ہے اسےکیسے بھارتی سپریم کورٹ نظر انداز کرسکتی ہے جبکہ انڈیا کا آئین کا آرٹیکل 51 کہتا ہے کہ عالمی قوانین کی عزت کی جائے گی۔

 انڈیا کا اپنا آئینی آرٹیکل 3 اس حوالے سے کہتا ہے کہ اسٹیٹ کو respectکریں تو انڈین سپریم کورٹ یہ فیصلہ کیسے دے سکتی ہے۔ بات واضح ہے 2024 میں الیکشن آرہے ہیں جس میں مودی پری پول ریگنگ کر رہے ہیں ہندوتوا کو پرموٹ کیا جارہا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا بھی ہندوتوا کا حصہ بنی ہے۔ 

کشمیری اس پر آواز بلند کریں گے اور پاکستانی کی تمام سیاسی کلاس کو اس پر بولنا پڑے گا۔ اس وقت بہت سی انڈین سیاسی پارٹیز اگر اس کے خلاف بولنا بھی چاہیں تو وہ نہیں بول پائیں گی چونکہ پورے انڈین میڈیا پر مودی کا ہولڈ ہے۔

ان باتوں پر اگر امریکہ، یورپی یونین اور عالمی کمیونٹی نے اگر دھیان نہ دیا تو انڈیا مزید شر انگیزیاں کرسکتا ہے حال ہی میں انڈیا کی ڈیپ اسٹیٹ امریکہ کینڈا تک لوگوں کو مار رہی ہے اور اس چیز سے مودی کو اعتماد ملے گا جو پوری دنیا کے لیے خطرے کو بڑھا رہا ہے۔کیا عالمی کمیونٹی یہ چاہتی ہے کہ کشمیر بھی غزہ بنے اور کشمیری بھی اتنا ہی خون دیں جتنا غزہ خون دے رہا ہے۔

نیشنل سیکورٹی ایکسپرٹ سید محمد علی نے کہا کہ یہی فیصلہ متوقع تھا اس فیصلے سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ پوری طرح ہندوتوا کا نظریہ او ربی جی پی کی سیاست کے زیر اثر اور کنٹرول میں ہے۔

 یہ مکمل طور پر عالمی قوانین اور بھارت کے اپنے آئین کی خلاف ورزی ہے۔میں سمجھتا ہوں عالمی سطح پر بھی اس کی مذمت کی جائے گی چونکہ کسی بھی ڈومیسٹک کورٹ کے فیصلے سے عالمی طور پر متنازع اور اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حیثیت تبدیل ہونا ممکن نہیں ہے۔

اہم خبریں سے مزید