• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے ’وٹس ایپ کال‘ پر پاناما جے آئی ٹی کی کبھی تفتیش نہیں کی

اسلام آباد(انصار عباسی ) 30 مئی 2017 کو دی نیوز نے ایک اسٹور ی بریک کی کہ پاناماکے حوالے سے ’ وٹس ایپ جے آئی ٹی‘کا متنازع قیام تھا۔یہ وہ معاملہ تھا جس کی سپریم کورٹ نے کبھی تفتیش نہیں کی اور اسے قالین کے نیچے دھکیل دیا۔وٹس ایپ کو استعمال کرتے ہوئے کال کرنے والے نے اپنے آپ کو رجسٹرار سپریم کورٹ کہہ کر متعارف کریا اوراسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور نیب کے سربراہا ن کو کہا کہ وہ جے آئی ٹی کے پینل کےلیے بھجوائے گئے ناموں مین مخصوص نام شامل کریں جن کا نام سپریم کورٹ کا خصوصی بینچ جے آئی ٹی کی تشکیل میں استعمال کریگا۔دی نیوز کی اسٹوری جس کی سرخی ’’ وٹس ایپ کالر کی کہانی اور پاناما جے ٹی آئی‘‘ تھی بڑے پیمانے پر زیر بحث آئی اور پاناما جے آئی ٹی کے حوالے سے سنجیدہ سوالات پوچھے گئے تھے لیکن سپریم کورٹ نے اس معاملے کو ہلکا لیا۔ اس وقت چیف جسٹس ثاقب نثار ہوا کر تے تھے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعدجب دی نیوز نے اس حوالے سے ان سے رابطہ کیا تو ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ان کا پاناماجے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے کوئی تعلق نہیں تھا اور یہ معاملہ تو اخبار میں خبر شائع ہونے کے بعد متنازع ہوا۔ انہوں نے اس امرپر زور دیا کہ انہوں نے رجسٹرار سے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ وٹس ایپ پر کال کریں۔ سابق چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ درحقیقت نفاذ کے بینچ سے متعلق ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ رجسٹرار نے ایسا کیوں کیا؟کال کرنے والے اس وقت کے رجسٹرار نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو عامر عزیز اور ایس ای سی پی کو بلال رسول کا نام اپنے اپنے اداروں کی جانب سے بھجوانے کےلیے کہا تھا تاکہ ان کا نام پاناما کیس کی جے آئی ٹی میں شامل کرایاجاسکے۔ کالرنے نیب کے چیئر مین کو عرفان نعیم منگی کا نام بھجوانے کیلیے بھی کہا تھا۔ یہ وٹس ایپ کالیں اس وقت کی گئیں جب سپریم کورٹ نے ہر متعلقہ ادارے سے دو نام طلب کیے تھے کیونکہ افسران کے ابتدائی پینل کےلیے بھجوائی گئی نامزدگیوں سے سپریم کورٹ مطمئن نہیں تھی۔ابتدائی طور پر پاناما کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تمام متعلقہ اداروں بشمول ایف آئی اے، آئی ایس آئی، ایم آئی ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، ایس ای سی پی اور نیب نے متعلقہ افسران کے پینل سپریم کورٹ کو بھجوائے تھے تاکہ جے آئی ٹی بنوائی جاسکے۔تاہم اس کیس میں سپریم کورٹ نے اضافی نام ایس ای سی پی، ایس بی پی اور نیب سے طلب کیے جب سپریم کورٹ کی یہ ہدایات متعلقہ محکموں کو پہنچیں تو اسی وقت ان کے سربراہان کو کالر نے وٹس ایپ پر کال کرکے رابطہ کیا۔یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ آیا کال کرنے والا واقعی رجسٹرارسپریم کورٹ تھا بھی یا کوئی اور تھا جو اس کا بھیس بنا کر گفتگو کر رہا تھا۔ نیب نے اپنا پینل نظرثانی کر دی اور اور منگی کا نام اس میں شامل کر دیاتاہم ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی چوائس کے نام بھجوائےاور کالر کی بات نہیں مانی۔ بعد میں سپریم کورٹ نے ایس ای سی پی اور اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بھجوائی جانے والی نامزدگیاں مسترد کردین اور اپنی مرضی کے نام ڈلوائے تاکہ معاملے کی چھان بین کی جاسکے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عدالت عظمیٰ کا خصوصی بینچ جس نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایس ای سی پی کی نامزدگیاں اس بنا پر مسترد کر دی تھیں کہ وہ عدالتی معیار پر پورا نہیں اترتی تھیں۔ عدالت کے خصوصی بینچ کے ایک معزز رکن نے اپنی آبزرویشن میں کہا تھا کہ’’ہم چاہتے ہیں کہ دیانتدار اور پیشہ ور افراد جے آئی ٹی کے رکن بنیں۔ اس کے بعد عدالت نے ایس ای سی پی کے چیئر مین اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر سے کہا کہ وہ آئندہ سماعت پراپنے گریڈ 18 کے افسران کی فہرستوں کے ساتھ پیش ہوں۔ اس کے بعد مرضی کی جے آئی ٹی وجود میں آگئی۔
اہم خبریں سے مزید