اسلام آباد (رپورٹ: عاصم جاوید) پانامہ پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر دائر تمام ریفرنسز میں بریت کے باوجود کیا سابق وزیر اعظم نواز شریف آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوگئے؟
سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دینے کے فیصلے پر آئینی ماہرین نے متضاد رائے کا اظہار کیا ہے۔ بیشتر آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں جبکہ سپریم کورٹ کی تشریح کے مطابق اس آرٹیکل کے تحت نااہلی کی مدت تاحیات ہے۔
بعد میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کر کے نااہلی کی مدت پانچ سال کردی گئی ہے۔ پارلیمان کی جانب سے نااہلی کی مدت کے تعین کے بعد میاں نواز شریف کی نااہلی کی مدت ختم ہو چکی ہے مگر اس کا فیصلہ بہرحال سپریم کورٹ کریگی۔
پیر کو سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملے پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد کا نوٹس لیا ہے اور اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔
سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملے کا نوٹس ”امام قیصرانی بنام میر بادشاہ قیصرانی“ انتخابی عذر داری کیس کی سماعت کے دوران لیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کا معاملہ لارجر بنچ کے سامنے مقرر کرنے کیلئے ججز کمیٹی کو بھیج دیا اور اس کیس کی سماعت جنوری 2024 میں ہو گی۔
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کیسے طے کر دی حالانکہ اس آرٹیکل میں تاحیات کا کہیں ذکر ہی نہیں۔