اسلام آباد (رپورٹ:رانامسعود حسین) سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے کیس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل(ر) فیض حمید، بریگیڈیئر (ر)عرفان رامے، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ محمد انورخان کاسی اور سابق رجسٹرارسپریم ارباب محمد عارف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا، جبکہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائر قمر جاوید باجوہ ، بریگیڈیئر ریٹائر فیصل مروت اور بریگیڈیئر ریٹائر طاہر وفائی کو فریق بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ان کیخلاف الزامات کو سنی سنائی باتیں قراردیدیتے ہوئے سابق کو نوٹس جاری کرنے سے انکار کردیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر جنرل فیض آکرکہیں کہ جنرل باجوہ کے کہنے پرسب کیا تو پھر کڑی جڑے گی، شوکت عزیز صدیقی نے چند افراد پر سنگین الزامات عائد کیے، عدالت سمجھتی ہے جن پر الزامات لگائے گئے انہیں جواب کا موقع دیا جائے، شوکت عزیز کے سنگین الزامات کے نتائج بھی سنگین ہونگے،فوج ایک آزاد ادارہ ہے یا کسی کے ماتحت ہے؟ کیا کوئی فوجی افسر خود وزیراعظم بننا چاہتا تھا؟ فوجی افسر کسی کو فائدہ دے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا، نوٹس جاری کر کے بلاوجہ لوگوں کو تنگ نہیں کرنا چاہیے، سسٹم میں شفافیت لانے کی کوششیں کر رہے ہیں، آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے، سپریم کورٹ کوکسی کے مقاصد کیلئےاستعمال نہیں ہونے دینگے، عدالت نے درخواست گزاروں کو ایک ہفتے کے اندر اندر درخواستوں میں ترمیم کرکے جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے مقدمے کی مزید سماعت موسم سرما کی تعطیلات کے بعد ماہ جنوری تک ملتوی کردی۔ تفصیلات کے چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے جمعہ کے روز کیس کی۔ چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ اگر الزامات صحیح ہیں تو پھر ان کا کیا ہوگا؟ جن کیلئے سہولت کاری ہورہی تھی؟انہوںنے کہا کہ الزام یہ نہیں ہے کہ کوئی جنرل وزیر اعظم بننا چاہتا تھا بلکہ الزام یہ ہے کہ یہ لوگ کسی کیلئے سہولت کاری کررہے تھے، انہوں نے کہا کہ الزام یہ بھی نہیں ہے کہ سازش سے جرنیلوں کو فائدہ پہنچا ہے بلکہ الزام یہ ہے کہ ایک شخص کو نقصان پہنچا کر دوسرے کو فائدہ پہنچایا گیا ہے،فاضل چیف جسٹس نے کہا ہے کہ جس نے اس ساری صورتحال سے فائدہ اٹھایاہے ؟ جب اسے فریق مقدمہ بنایا جائے گا تو معاملہ آگے چلے گا،یا یہ کہا جائے کہ سارا معاملہ ایک جج کی برطرفی کا ہے؟ لیکن پھر شاید یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 184 تین کے تحت مفاد عامہ کے زمرہ میں نہ آئے، انہوں نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آ پکی درخواست میں تضادات ہیں، اگر آپ کا موقف یہ ہے کہ جن افراد کو فریق بنایا گیا ہے وہ آئین پاکستان کے پاسداری نہیں کررہے تھے ؟تو پھر اس جال میں اور بھی لوگ پھنس جائینگے،آپ کی تقریر میں کسی کو نااہل کرنے کیلئے دباؤ ڈالنے کا ذکر ہے،اگرکسی کو نااہل قرار دینے کیلئے دباؤ تھا تو اس کے نتائج اور ہونگے،اگر کوئی جرنیل خود وزیر اعظم بننا چاہ رہا تھا تو وہ اور بات ہے؟ لیکن اگر ان جرنیلوں نے کسی کو فائدہ پہنچانے کیلئے یہ کام کیا ہے تو پھر اس کے سنگین نتائج ہونگے،ایک شخص کو الیکشن سے باہر رکھنے کیلئے کچھ کررہے تھے تو اس کا مقصد اپنی پسند کے امیدوار کو جتوانا تھا،چیف جسٹس نے کہا آپ ہمارے سامنے آرٹیکل 184 تین کے تحت آئے ہیں، یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل دائرہ اختیار کے تحت کیا ہو سکتا ہے،عدالتی کارروائی آپ کی مرضی کے مطابق نہیں چلے گی، آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے،جب آپ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم آئین کے مطابق چلیں گے، یہ آسان راستہ نہیں ہے، درخواست گزار شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے ہیں انکے نتائج بھی سنگین ہونگے،جس پر شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پسندیدہ امیدوار جیپ کا نشان والا تھا۔