• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن 8 فروری کو ایگزیکٹو کی زیر نگرانی، سپریم کورٹ نے بے یقینی ختم کردی

اسلام آباد( رپورٹ:رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کیلئے بیوروکریسی کی خدمات لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کرنے کا لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے اس حوالے سے تمام تر کارروائی روکنے کا حکم جاری کردیاہے اور الیکشن کمیشن کو آج(بروز جمعہ) ہی انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے، عدالت نے درخواست گزار وپاکستان تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکرٹری عمیر نیازی کو بھی توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس جار ی کردیا ہے، چیف جسٹس نے کہا جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دینگے، لاہور ہائیکورٹ کے جج نے حدود سے تجاوز کیا اور غیر ضروری عجلت میں فیصلہ کیا، اگر عدلیہ کے افسران انتخابات نہ کرائیں، الیکشن کمیشن اور ایگزیکٹو بھی نہ کرائے تو کون کرائے؟ پٹیشن عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی ہے،جسٹس طارق مسعود نے کہا آر اوز انتظامیہ سے لینے کا قانون کالعدم ہوجائے تو الیکشن ہو ہی نہیں سکیں گے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انتخابات کے حوالے سے بے یقینی کی صورتحال ختم ہوگئی۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بنچ نے جمعہ کی شب الیکشن کمیشن کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کے فیصلے کیخلاف دائراپیل کی سماعت کی تو اپیل کی سماعت پر ہونے والی عدالتی کاروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یو ٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی تو چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل (لاء افسر ) سجیل سواتی سے سوال کیا کہ اتنی جلدی کیا ہو گئی، ا آج میری فلائٹ تھی مگر مس ہو گئی، اس کا مداوا کیسے ہو گا، چلیں کوئی بات نہیں، ہم عدالت میں کیس لگا کر سن رہے ہیں،؟جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ الیکشن شیڈول کے اجراء میں وقت بہت کم ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تو 8 فروری کو الیکشن کرانے ہیں جس پر وکیل نے جواب دیا کہ کوشش ہے کہ الیکشن منعقد کروا دیں،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کوشش کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ جبکہ جسٹس طارق مسعود نے بھی کہا کہ کوشش کیوں؟، آپ نے 8 فروری کو ہی الیکشن کرانے ہیں، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ ہائیکورٹ میں آر اوز اور ڈی آراوز کی تعیناتی کو چیلنج کیا گیاہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہائی کورٹ کا آرڈر کہاں ہے؟ انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف الیکشن کون روکنا چاہتا ہے؟تو درخواست گزار عمیر نیازی کون ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ درخواست گزار کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ہی درخواست پرتوسپریم کورٹ نے الیکشن کا فیصلہ دیا تھا اور عمیر نیازی کی پٹیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے، تو کیا ا ب ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟ عدالت کی ہدایت پر فاضل وکیل نے کہا کہ درخواست گزار کا موقف ہے کہ آر اوز ڈی آر اوز کی تعیناتی کیلئے چیف جسٹس ہائی کورٹ سے مشاورت کی جائے، جبکہ آرٹیکل 218 (3) کے حوالے سے الیکشن ایکٹ کا سیکشن 50 اور 51 چیلنج کیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کا افسران تعینات کرنے کا حق کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے ،جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا آرٹیکل 218 (3) میں کچھ ایسا ہے کہ انتخابات فیئر نہیں ہو سکتے؟فاضل وکیل نے کہا کہ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 218 تھری کے تحت فئیر الیکشن کرائے جائیں،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 8 فروری میں کتنے دن رہتے ہیں؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ آج سے 55 دن رہتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابی پروگرام 54 دن کا ہونے کیلئے آج شیڈول جاری ہونا لازمی ہے،عدالت کے حکم پر سیکریٹری الیکشن کمیشن روسٹرم پر آئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارے پلان کے مطابق ٹریننگ کے بعد ہم نے شیڈول جاری کرنا تھا،جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے الیکشن شیڈول تیار کر لیا ہے، آئین میں یہ کہا لکھا ہے کہ آپ نے ٹریننگ کے بعد ہی الیکشن شیڈول جاری کرنا ہے،جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ آپ نے ٹریننگ بلاوجہ روکی ہے ، کیا آپ بھی چاہتے ہیں کہ الیکشن نہ ہوں، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد آپ نے ٹریننگ ختم کرنے کا نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا ہے؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ الیکشن شیڈول کب دیتگے،تو وکیل نے کہا کہ عملے کی ٹریننگ کے بعد الیکشن شیڈول جاری کرینگے، چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن سے انتخابات کا شیڈول مانگتے ہوئے استفسار کیا کہ شیڈول ہے کہاں، ہمیں شیڈول دکھائیںجبکہ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اگر آر اوز انتظامیہ سے لینے کا قانون کالعدم ہوجائے تو کبھی الیکشن ہو ہی نہیں سکیں گے ،چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست دی گئی ہے؟ جس پر وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست نہیں دی گئی تھی، جسٹس سردار طارق مسعود نے دریافت کیا کہ کیا ریٹرننگ افسر جانبدار ہو تو الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ایک ہزار سے زائد افسر اکیلے عمیر نیازی کیخلاف جانبدار کیسے ہوسکتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ عمیر نیازی کو کوئی مسئلہ تھا تو سپریم کورٹ آتے، ہائی کورٹ نے پورے ملک کے ڈی آر اوز کیسے معطل کر دیے؟ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کہتے ہیں جوڈیشل افسران نہیں دے سکتے، کیا جج نے اپنے ہی چیف جسٹس کیخلاف رٹ جاری کی ہے؟ انہوں نے کہا کہ کیا توہین عدالت کے مرتکب شخص کو ریلیف دے سکتے ہیں؟ کیوں نہ عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیں؟ کیا عمیر نیازی وکیل بھی ہے یا نہیں؟تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمیر نیازی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رہے ہیں، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ہمارے فیصلے کو کون ڈی ریل کر رہا ہے، انتخابات کو ڈی ریل کرنے کے پیچھے کون ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ہائی کورٹ میں سماعت کا علم ہی نہیں تھا جس پر چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا اٹارنی جنرل سے سب کچھ مخفی رکھا گیا، عدلیہ سے ایسے احکامات آنا حیران کن ہے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن پروگرام کب جاری ہونا تھا؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن شیڈول آج جاری ہونا تھا، چیف جسٹس نے مزید پوچھا کہ کیا اٹارنی جنرل کا موقف سنا گیا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ معاونت کیلئے نوٹس آیا تھا لیکن ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے تھے،جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں اٹارنی جنرل کا ذکر ہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے وضاحت دی کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سماعت سے قبل مجھ سے ہدایات لی تھیں،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عمیر نیازی کی ایک درخواست پر پورے ملک میں انتخابات روک دیں؟ عمیر نیازی کی درخواست تو سپریم کورٹ کے حکم کی توہین ہے، انہوں نے کہا کہ درخواست دائر ہوئی ،سماعت کیلئے مقرر بھی ہو گئی، حکم امتناع دینے والا جج ہی لارجر بینچ کا سربراہ بن گیا۔

اہم خبریں سے مزید