پشاور(نمائندہ جنگ /ایجنسیاں)پی ٹی آئی کو ریلیف مل گیا ‘پشاور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور بلے کا نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا اورتمام فریقین کونوٹس جاری کرتے ہوئے قرار دیاکہ رٹ پٹیشن کو موسم سرماکی تعطیلات کے بعد ڈویژن بنچ کے سامنے سماعت کے لئے رکھاجائے۔ عدالت کے سنگل رکنی بنچ نے تین صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ بھی جاری کردیا‘عدالت نے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر ڈالنے اور انتخابی نشان بحال کرنے کی بھی ہدایت دیدی جبکہ جسٹس کامران حیات میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کر نا اس کے ووٹرز کی حق تلفی ہے‘ انتخابی نشان الاٹ کرنے کیلئے آخری تاریخ 13 جنوری ہے‘اگر پارٹی سے انتخابی نشان لیا جائے تو پھر کیا رہ جاتا ہے‘اگر مسلم لیگ ن سے شیر، پیپلزپارٹی سے تیر اور جے یو آئی سے کتاب کا نشان واپس لیا جائے تو کیا ہوگا۔الیکشن کمیشن ایک پارٹی کو انتخابات سے آؤٹ کررہی ہے ‘اگر کل عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ آرڈر ٹھیک نہیں تو پھرکیاہوگا۔سماعت کے موقع پر الیکشن کمیشن کا کوئی نمائندہ یا وکیل عدالت میں موجود نہیں تھا۔ تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل نے کیس کی سماعت کی۔پی ٹی آئی کے بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کرائے، ای سی پی نے تسلیم کیا کہ انتخابات ٹھیک ہوئےمگرجس بندے نے انتخابات کرائے اس کی تعیناتی ٹھیک نہیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان نہ ہونے کی صورت میں پارٹی کو مخصوص نشستیں بھی نہیں مل سکتیں، اس پر عدالت نے کہا کہ میں نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ نہیں پڑھا، کیا صرف یہی لکھا ہے کہ الیکشن کرانے والے کی تعیناتی غلط ہے۔عدالت کے سوال پر علی ظفر نے جواب دیا کہ بالکل الیکشن کمیشن نے یہی لکھا ہے،ا س پر انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں، انتخابی نشان ایک بنیادی حق ہے جو ہم سے لے لیا گیا، الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار ہی نہیں۔اپنے دلائل میں تحریک انصاف کے وکیل نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن پارٹی میں تعیناتیوں پر سوال نہیں اٹھا سکتا، آئین اور الیکشن رولز میں الیکشن کمیشن کے اس اختیار کا کوئی ذکر نہیں۔الیکشن کمیشن کو درخواست دینے والے جہانگیر کے وکیل نوید اختر ایڈوکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ پی ٹی آئی نے مقررہ وقت میں انتخابات نہیں کرائے، ہم نے مقررہ وقت میں انتخابات نہ کرانے کی خلاف درخواست دی تھی۔عدالت نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے 20 دن کا وقت دیا تو آپکی بات ختم ہوگئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثناء اللہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ انٹرم ریلیف دینے سے لگے گا کہ حتمی فیصلہ بھی دے دیا۔جسٹس کامران حیات نے کہا کہ کل کو اگر ہم کسی فیصلے پر پہنچ گئے تو پھر پانی سر سے گزرا ہوگا، کیا پھر الیکشن کمیشن دوبارہ انتخابات کرائے گا۔