جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس عُمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد 29ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف اُٹھایا۔ سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کے لیے’’ محترم‘‘ یا’’ صاحب‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا اور سپریم کورٹ کو’’ اعلیٰ عدلیہ‘‘ پکارنے سے بھی منع کیا۔ سپریم کورٹ میں ہونے والی عدالتی کارروائی براہِ راست دِکھانے کی نئی روایت کا آغاز ہوا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بننے کے فوری بعد فُل کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں سماعت کے لیے مقرّر کیں اور اس عدالتی کارروائی کو ٹی وی چینلز پر براہِ راست نشر کیا گیا۔ عدالت نے تمام درخواستیں مسترد کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کر لی۔ ماسٹر آف رُول کا تصوّر ختم کرتے ہوئے بینچ کی تشکیل، مقدمات مؤخر کرنے اور از خود نوٹس کا صرف چیف جسٹس کا اختیار 3رُکنی ججز کمیٹی کو منتقل کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے دورانِ سماعت ریمارکس دیئے کہ’’مارشل لا لگنے پر سب ہتھیار پھینک کر توثیق کر دیتے ہیں، پارلیمنٹ کچھ کرے، تو حلف یاد آ جاتا ہے، پارلیمنٹ کی قدر کریں۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کیس میں پھانسی کی سزا کے صدارتی ریفرنس برسوں بعد سماعت کے لیے مقرّر ہوا، جس کی عدالتی کارروائی ٹی وی چینلز پر براہِ راست دِکھائی گئی۔
سپریم کورٹ کی مداخلت پر مُلک میں قومی انتخابات کے لیے 8فروری 2024ء کی تاریخ طے پائی۔ عدالتی مداخلت پر ہی الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول کا بھی اعلان کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ’’صدرِ مملکت نے الیکشن کی تاریخ نہ دے کر آئینی ذمّے داری پوری نہیں کی۔ مَیں زندہ رہا تو اِن شاء اللہ 8فروری کو ہر صُورت قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے۔‘‘اِس سے قبل سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14مئی کو الیکشن کروانے کا حکم دیا تھا، جس پر عمل نہیں ہو سکا تھا۔
سپریم کورٹ نے’’فیض آباد دھرنا عمل درآمد کیس‘‘ میں حکومت کی جانب سے بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا’’ہم جاننا چاہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کا ماسٹر مائنڈ کون تھا اور دھرنا کون مینیج کر رہا تھا؟ کیا لوگ کینیڈا سے یہاں آ کر دھرنا دیں گے، تو کوئی پوچھے گا نہیں؟‘‘انکوائری کمیشن ایکٹ 2017ء کے تحت وفاقی حکومت نے 3رُکنی کمیشن تشکیل دیا، جو سپریم کورٹ میں انکوائری رپورٹ جمع کروائے گا۔
عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف دائر نظرِثانی درخواست پر سماعت، 22جنوری 2024ءتک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ’’ فیض آباد دھرنے پر احتساب نہ ہونے سے سانحۂ 9مئی دیکھنا پڑا۔ نظرِثانی کی درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرّر نہ کر کے سپریم کورٹ میں ہیرا پھیری کی گئی۔‘‘نیب ترمیمی ایکٹ کے خلاف عمران خان کی درخواست منظور کر لی گئی۔ عدالت نے کہا کہ نیب ختم کیے گئے ریفرنسز 7دن کے اندر احتساب عدالتوں کو واپس بھجوائے۔
دس میں سے نو ترامیم کالعدم قرار دے دی گئیں، 50کروڑ روپے کی حد سے کم بدعنوانی کے مقدمات پر نیب کا دائرۂ اختیار ختم کرنے کی شِق بھی کالعدم قرار دی گئی، جس کے نتیجے میں آصف زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، شوکت عزیز، راجا پرویز اشرف، اسحاق ڈار، مُراد علی شاہ سمیت دیگر سیاست دانوں کے وہ تمام مقدمات احتساب عدالتوں میں بحال ہو گئے، جو نیب ترمیمی ایکٹ کے باعث نیب کو واپس کر دیئے گئے تھے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا کہ’’پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے، تو پھر ختم بھی کر سکتی ہے۔ سوال غلط ترمیم کا نہیں، منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی کا ہے۔
ججز اور فوجی افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کے بعد نیب قانون کے تحت بھی ایکشن ہونا چاہیے۔ عدلیہ قانون سازی کا اُس وقت جائزہ لے سکتی ہے، جب وہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو۔‘‘اُنہوں نے دورانِ سماعت ریمارکس دیئے کہ’’ 17غیر منتخب جج پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کیسے بدنیّتی کہہ سکتے ہیں۔‘‘اِس فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلز دائر ہوئیں اور فیصلے پر عمل درآمد روکنے کی استدعا کی گئی، عدالت نے نیب ترامیم کا فیصلہ معطّل کرنے کی استدعا تو مسترد کر دی، تاہم احتساب عدالت کو نیب ریفرنسز پر حتمی فیصلے سے روک دیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ’’ عام شہریوں کے تمام کیسز ملٹری کورٹس سے سِول عدالتوں میں بھیجے جائیں۔‘‘ 9مئی کو فوجی و سِول تنصیبات پر حملوں کے ملزمان، پی ٹی آئی کارکنان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف آئینی درخواستیں منظور کی گئیں۔ بعد میں انٹراکورٹ اپیل دائر ہوئی، تو عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطّل کر دیا۔ سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فوری عدالت طلب کیا۔
چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے عمران خان کے عدالت میں پیش ہونے پر’’گُڈ ٹو سی یو‘‘ کہا۔رینجرز کی سیکیوریٹی میں گیسٹ ہاؤس منتقل کرنے اور جوڈیشل کسٹڈی میں رکھنے کا حکم دیا۔ ہائی کورٹ میں پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ’’ عدالت چاہتی ہے، آپ خود مُلک میں فسادات کی مذمّت کریں۔‘‘چیف جسٹس نے کہا’’بے شک مخالفین پسند نہیں، لیکن سیاسی بات چیت کریں، اس سے امن آئے گا۔‘‘’’ گڈ ٹو سی یو‘‘ کہنے پر تنقید ہوئی، تو چیف جسٹس نے متعدّد بار وضاحت کی کہ وہ اکثر عدالت میں پیش ہونے والوں کو اِسی طرح کہتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے احاطے سے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اور تحقیقاتی ایجنسیز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملزمان کی احاطۂ عدالت سے گرفتاری سے روکتے ہوئے کہا کہ’’عمران خان کو احاطۂ عدالت سے گرفتار کر کے بنیادی حقوق پامال کیے گئے۔ عدالتی احاطے سے گرفتاری کی توثیق نہیں کی جا سکتی۔ ایسا کرنے سے شہریوں کا عدلیہ پر اعتماد کم ہوتا ہے اور پولیس یا تحقیقاتی ایجینسیز ایسی اجازت ملنے پر عدالتی احاطے کو شکار گاہ تصوّر کریں گی۔‘‘ اِس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کی 190ملین پائونڈ اسکینڈل کیس میں احاطۂ عدالت سے گرفتاری کو قانونی قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی کارروائی پر حکمِ امتناع جاری کرتے ہوئے کہا کہ’’ ایگزیکیٹو، سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے، پہلے آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی گئی، پھر کہا تصدیق کروا لیتے ہیں۔ چیف جسٹس دست یاب ہیں، ان سے پوچھے بغیر ہی انکوائری کمیشن کے ججز کا انتخاب کیا گیا۔‘‘ جسٹس منیب نے کہا’’ ہیکر نے آڈیوز لیک کیں، وزرا نے اُنہیں پریس کانفرنس کر کے پبلک کیا۔ اُن کو برطرف کرنا چاہیے تھا۔‘‘
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سپریم جوڈیشل کاؤنسل سے بطور جج برطرفی کے خلاف درخواست ایک طویل انتظار کے بعد مقرّر ہوئی جس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کردیے گئے۔چیف جسٹس نے شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان کو مخاطب کر کے ریمارکس دیے’’آپ شخصیات پر الزام لگا رہے ہیں، تو ان کو آپ نے پارٹی کیوں نہیں بنایا؟ ہو سکتا ہے وہ آ کر مان لیں اور ہو سکتا ہے وہ آ کر اپنا کوئی مؤقف پیش کریں۔‘‘
سپریم جوڈیشل کاؤنسل نے سپریم کورٹ کے جسٹس طارق مسعود کے خلاف شکایت خارج کر دی، جب کہ جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف کمپلینٹ پر جج کو دو شوکاز نوٹس جاری کیے۔22مئی 2023ء سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے شاہ راہِ دستور پر نئی بلڈنگ میں کیسز کی سماعت کا آغاز کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سُنائی گئی 10سال اور سات سال قید کی سزاؤں کے فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں دونوں ریفرنسز میں باعزّت بری کردیا۔ نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریّت کے خلاف اپیل واپس لے لی۔
اِس سے قبل عدالت نے نواز شریف کی واپسی کے لیے حفاظتی ضمانت کی درخواست پر عدالت میں سرینڈر کرنے تک نیب کو گرفتاری سے روکنے کا حکم دیا، پیش ہونے پر ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلز بحال کیں۔ نیب نے کہا کہ’’ اُنہیں اشتہاری ملزم کو حفاظتی ضمانت دینے پر کوئی اعتراض نہیں، وہ گرفتار نہیں کرنا چاہتی۔ اپیلیں بحال کرنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔‘‘عمران خان کے خلاف سائفر کیس کا جیل ٹرائل تیکنیکی بنیادوں پر قانونی طریقۂ کار اختیار نہ کرنے پر کالعدم قرار پایا۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ’’اوپن ٹرائل یا اِن کیمرا ٹرائل کے قانونی تقاضے پورے کر کے جیل ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔‘‘
ہائی کورٹ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی تعیّناتی کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج کی تعیّناتی کا پراسیس ایگزیکیٹو نے نہیں، بلکہ ہائی کورٹ نے شروع کیا اور جج کی تعیّناتی کے لیے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے مشاورت بھی کی گئی۔‘‘عمران خان نے سائفر کیس میں جیل ٹرائل اور خصوصی عدالت کے جج کی تعیّناتی کو چیلنج کیا تھا۔ دوبارہ ٹرائل کا آغاز ہوا، تو اِن کیمرا ٹرائل پروسیڈنگ کو چیلنج کیا گیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے 28دسمبر کو سائفر کیس کی کارروائی پر ایک بار پھر حکمِ امتناع جاری کر دیا، جو 11 جنوری 2024 تک مؤثر رہے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کو سائفر کیس کا ٹرائل ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن جاری کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے توشہ خانہ نیب کیس میں کال اپ نوٹسز کو خلافِ قانون قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا۔چیئرمین پی ٹی آئی کی وڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹا دی گئی۔ عدالت نے جدید ڈیوائسز کے استعمال اور شواہد کے دَوران ملزم کی وڈیو لنک سے حاضری کے لیے رُولز بنانے کی ہدایت کی۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ ٹرائل کے دوران استغاثہ کے شواہد ریکارڈ کرتے وقت ملزم کی وڈیو لِنک کے ذریعے حاضری لگائی جا سکتی ہے، تاہم فردِ جرم عائد کرنے، ضابطۂ فوج داری کی دفعہ 342کا بیان قلم بند کرنے اور مقدمے کے فیصلے کے وقت ملزم کی ذاتی حاضری ضروری ہے۔
جسٹس بابر ستّار نے آڈیو لیکس کیس میں سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے بیٹے، نجم الثاقب کی پارلیمانی کمیٹی میں طلبی اور سابق خاتونِ اوّل بشریٰ بی بی کی ایف آئی اے میں طلبی کے نوٹس معطّل کر دیئے۔ عدالت نے وفاق سے پوچھا کہ’’ کیا آئین اور قانون شہریوں کی کالز کی سرویلنس اور خفیہ ریکارڈنگ کی اجازت دیتا ہے؟ اگر فون ریکارڈنگ کی اجازت ہے، تو کون سی اتھارٹی کس میکنزم کے تحت ریکارڈنگ کر سکتی ہے؟ آڈیو ریکارڈنگ کو خفیہ رکھنے اور اس کا غلط استعمال روکنے کے حوالے سے کیا سیف گارڈز ہیں؟ اگر اجازت نہیں، تو کون سی اتھارٹی شہریوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کی ذمّے دار ہے؟غیر قانونی طور پر ریکارڈ کی گئی کالز کو ریلیز کرنے کی ذمّے داری کس پر عائد ہو گی؟‘‘
وفاق نے بتایا کہ’’ کسی ایجینسی کو شہریوں کے فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی، تاہم قانون میں ایسی گنجائش موجود ہے۔‘‘ عدالت نے آڈیو لیکس کیس میں نے ڈی جی آئی بی، ڈی جی ایف آئی اے اور چیئرمین پی ٹی اے کو 19 فروری 2024 کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔ صحافی، بلاگر، مدثر نارو سمیت دیگر لاپتا افراد اور 50سے زائد جبری گم شُدہ بلوچ طلبہ کیسز کی متعدّد سماعتیں ہوئیں۔
بلوچ طلبہ گم شُدگی کیس میں جسٹس محسن اختر کیانی نے نگران وزیرِ اعظم، نگران وزیرِ داخلہ، سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع کو طلب کیا۔ نگران وزیرِ اعظم بیرونِ مُلک دورے کے باعث عدالت میں پیش نہ ہوئے۔ تاہم، نگران وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ تمام مسنگ پرسنز کو بازیاب کروایا جائے گا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے 22گم شُدہ طلبہ کے گھروں کو واپس آنے کی رپورٹ جمع کروائی۔ سائفر کیس میں گرفتار عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کی گئیں۔ توشہ خانہ فوج داری کیس میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے سُنائی گئی سزا معطّل کر کے عمران خان کی ضمانت منظور کی گئی۔
عدالتی احکامات کی حکم عدولی میں پی ٹی آئی رہنمائوں شہریار آفریدی اور شاندانہ گل زار کے نظربندی احکامات جاری کرنے پر ڈی سی، اسلام آباد عرفان میمن اور ایس ایس پی آپریشنز سمیت دیگر پر توہینِ عدالت کی فردِ جرم ہوئی۔پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی مہم چلائی گئی، جس پر ہائی کورٹ بار، قانونی ماہرین اور وزارتِ قانون نے مذمّتی بیانات جاری کیے۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ، شیخ رشید احمد کے لاپتا ہونے پر بازیابی کیس کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صداقت علی خان نے کی۔ بعد ازاں، شیخ رشید خود واپس آ گئے اور کہا کہ وہ چلّے پر گئے ہوئے تھے۔ پشاور ہائی کورٹ نے پاکستانی خاتون سے شادی کی بنیاد پر افغان شہری کو پاکستانی شہریت دینے کا حکم دیا۔ توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو سزا سُنانے والے جج ہمایوں دلاور کو’’ او ایس ڈی‘‘ بنا دیا گیا۔وہ برطانیہ سے جوڈیشل ٹریننگ کے بعد واپس آئے، تو انھوں نے چیف جسٹس کو سیکیوریٹی خدشات سے آگاہ کیا تھا کہ اُن کی کورٹ میں کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔
واضح رہے، ہمایوں دلاور کو برطانیہ میں جوڈیشل ٹریننگ کے دوران پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے بھی احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بعدازاں، انہیں اسپیشل جج سینٹرل تعیّنات کیا گیا۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو توشہ خانہ فوج داری کیس میں 3سال قید اور نااہلی کی سزا کا فیصلہ سُنایا۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ’’ عمران خان نے توشہ خانہ سے لیے تحائف کا غلط فائدہ اُٹھایا، جھوٹا ریکارڈ جمع کروایا، اُن کی بے ایمانی پر کوئی شک نہیں، خُود تسلیم کیا کہ تحفے بیچ دیئے۔
بیچے گئے اثاثوں کی تفصیل دینا لازم، فراہم کردہ معلومات غلط ثابت ہوئیں۔‘‘ بشریٰ بی بی کے خلاف غیر شرعی نکاح کیس میں مفتی سعید نے اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں بیان قلم بند کروایا کہ’’ چیئرمین پی ٹی آئی کا یکم جنوری 2018ء کو بشریٰ بی بی سے نکاح پڑھایا، عمران خان نے فروری 2018ء میں دوبارہ رابطہ کیا اور دوبارہ نکاح پڑھانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ’’ پہلے نکاح کے وقت بشریٰ بی بی کی عدّت کا دورانیہ مکمل نہیں ہوا تھا، اِس لیے نکاح غیر شرعی تھا‘‘، بشریٰ بی بی نے 2018ء کے پہلے دن نکاح کرنے پر پیش گوئی تھی کہ وہ وزیراعظم بن جائیں گے۔‘‘ سماعت کے دوران شہری نے یہ درخواست واپس لے لی، تو بشریٰ بی بی کے شوہر خاور مانیکا نے عدالت سے رجوع کر لیا۔