• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

5 سالہ نااہلی پر پورا پاکستان خوش، کسی نے قانون چیلنج نہیں کیا، چیف جسٹس، نااہلیت کیس کا فیصلہ محفوظ

اسلام آباد(رپورٹ:،رانامسعود حسین) سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت عوامی نمائندوں کی تاحیات نااہلیت سے متعلق سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں اور الیکشنز (ترمیمی)ایکٹ2023کی عوامی نمائندہ کی عوامی عہدہ سے ناہلیت کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہ ہونے سے متعلق دفعہ 232 میں واضح تضاد کی بنا پر پیدا ہونے والے ابہام کو دور کرنے سے متعلق مقدمہ کی طویل سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے،عدالت بہت جلد طے کریگی کہ عوامی نمائندوں کی تاحیات نااہلی کا عدالتی فیصلہ درست قانون ہے یا نہیں ؟دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ 5 سالہ نا اہلی پر پورا پاکستان خوش، کسی نے قانون چیلنج نہیں کیا، ملک تباہ کرنے پر سزا 5سال اور کاغذات نامزدگی میں غلطی پر تاحیات نااہلی؟ ایک جنرل نے شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟ کیس میں کوئی سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، عوام کا کسی کو خیال نہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا لوگوں کو طے کرنے دیں کون سچا ہے کون ایماندار،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا میری خواہش ہے ڈکلیریشن کی مدت 5سال ہو،اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس میں آئین کی تشریح غلط کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمہ کا مختصر فیصلہ جلد سنائیں گے مگر آج نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندو خیل ،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سات رکنی لارجر بینچ نے جمعہ کے روز کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے کہاکہ اس وقت ہم صرف تاحیات نااہلیت کے آئینی اور قانونی پہلو ؤںکو دیکھ رہے ہیں،اس بارے میںانفرادی مقدمات کی سماعتیں اگلے ہفتے کی جائیں گی ،درخواست گزار جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کے سامنے بنیادی معاملہ اسی عدالت کے سمیع اللہ بلوچ کیس کے فیصلے کا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی سمیع اللہ بلوچ کیس پرسوال اٹھایا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق نااہلی کا ڈیکلریشن سول کورٹ سے آئیگا؟تو فاضل وکیل نے بتایا کہ جی، ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ کے فیصلے پر کسی کا کوئی بنیادی آئینی حق تاعمر ختم نہیں ہوتا ہے، تاحیات نااہلی کے بارے میں مجھے کامن لاء سے ایسی کوئی مثال نہیں ملی ہے، کسی امیدوار کا یوٹیلٹی بل بقایا ہو، جب ادا ہو جائے تو وہ اہل ہوجاتا ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق کیا انتخابات کے بعد ہوگا یا پہلے ہوگا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں خود کو آئین کی شق تک محدود نہیں کرنا چاہیے، پورے آئین کو دیکھنا ہوگا، ہم بنیادی آئینی حقوق اورآئینی تاریخ کو نظر انداز کر رہے ہیں، شفاف ٹرائل، واجب عمل اوربنیادی تعلیم بھی آئین کا حصہ ہے، ایوب خان سے آئین پر دست اندازی کا سلسلہ شروع ہو گیاتھا، میں پاکستان کی تاریخ کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہوں،انہوںنے کہا کہ ملک کو تباہ کرنے والے امیدوار کی نااہلیت کی سزا 5 سال ہے جبکہ کاغذات نامزدگی میں معمولی غلطی پر سزا تاحیات ہے، ہم ابھی تک آئینی شق کی زبان میںپھنسے ہوئے ہیں،فاضل وکیل نے کہا کہ 1985میں آرٹیکل 62 ون ایف کو آئین کا حصہ بنایا گیاتھا، آرٹیکل 62 اور 63 کو اب اکھٹا کیا جاتا ہے،آرٹیکل 62 کو آرٹیکل 63 کے بغیر نہیں دیکھا جاسکتاہے ،جسٹس جمال مندوخیل کے استفسار پر انہوںنے بتایا کہ کونسی ایسی سول کورٹ ہے جو کسی کو واجبات باقی ہونے پر کہہ دے کہ یہ صادق و امین نہیں، عدالت کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ آئین میں کورٹ آف لاء کی بات ہے جس میں سول اور کریمنل دونوں عدالتیں آتی ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم جو چاہے وہ کر سکتے ہیں؟، کیا آپ مانتے ہیں دنیا میں سب سے اچھے اراکین پارلیمنٹ پاکستان کے ہیں؟، کیا دنیا میں کہیں اراکین اسمبلی کیلئے اہلیت کا ایسا معیارہے؟جس پر فاضل وکیل نے کہا دنیا میں کہیں ایسی اہلیت کا معیار نہیں ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئین کو دیکھ رہا ہوں، الفاظ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن میرا یہ اختیار نہیں ہے کہ آئین کے ہر لفظ کو نظر انداز کروں، آئین کا ہر لفظ اہم ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے کے ذریعے تشریح کر کے مدت کا تعین کردیا ہے، آئین نے نہیں کیا ہے ،ایک شخص قتل کرتا ہے، لواحقین کو دیت دیتا ہے تو کاغذات نامزدگی جمع کرا سکتا ہے،فاضل وکیل نے کہا کہ الیکشن ٹریبونل پورے الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے، الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کی سزا 2 سال ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی فراڈ کرتا ہے تو اس کا مخالف ایف آئی آر درج کراتا ہے، اسے سزا ہوجائے تو کیا تاحیات نااہل ہوجاتا ہے ؟،چیف جسٹس نے کہا کہ جب آئین نے خود طے کیا ہے کہ نااہلی اتنی ہے تو ٹھیک ہے، نیب قانون میں بھی سزا 10 سال کرائی گئی ہے، آئین وکلاء کیلئے نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کیلئے ہے، آئین کو آسان کریں، آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دے ،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مدت 5 سال طے کرنے کا معاملہ عدالت میںنہیں آیا، کیا ہم 232 تین کو ریڈ ڈاون کرسکتے ہیں؟کیاعدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ پارلیمنٹ 232 تین کو اس طرح طے کرے کہ سول کورٹ سے ڈگری ہوئی تو سزا 5 سال ہوگی۔

اہم خبریں سے مزید