ادب، انسانی زندگی کی ترجمانی کرتا ہے اورکسی بھی سماج کی تمام تر تلخ و مسحور کُن کیفیات کو دل سے دل تک پہنچاتا ہے۔ ادب اور زندگی کے حوالے سے ممتاز محقّق، افسانہ نگاراور نقّاد، مجنوں گورکھ پوری لکھتے ہیں کہ ’’دنیا کے ادبیات کا اگر تاریخی مطالعہ کیا جائے، تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ادب بھی اُن ہی حالات واسباب کا نتیجہ ہے، جنھیں مجموعی طور پر ہیئتِ اجتماعی یا نظامِ معاشرت کہتے ہیں۔ ادب، انسان کے جذبات و خیالات کا ترجمان ہے اور یہ جذبات و خیالات زمانے اور ماحول کے تابع ہوتے ہیں۔
جیسا دَور اور جیسی معاشرت ہوگی، ویسے ہی جذبات و خیالات ہوں گے اور پھر ویسا ہی ادب ہوگا۔‘‘ تخلیقی ادب، اپنے معاشرے، ثقافت اورمسائل کی ترجمانی کرتا ہے، تب ہی سال بھر اس شعبے میں بیش بہا تخلیقات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پھر عمومی شعبہ جات کی طرح شعبۂ ادب میں بھی بیت جانے والا برس اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں عام طور پر بڑے،اہم اخبارات سال کے اختتام پر سالِ رفتہ کے ادب کا جائزہ لیتے ہیں۔
صرف اردو ہی نہیں، انگریزی، ہندی، فارسی اور دیگر بڑی زبانوں کے اخبارات و جرائد کا بھی یہی معمول ہے۔ ان جائزوں کی اشاعت کا مقصد عوام کو سال بَھر کے ادبی منظرنامے، اہم ادبی واقعات، تقریبات، اصنافِ سخن میں کتابوں کی اشاعت، جرائد کی صورتِ حال اور اہم شخصیات کے راہئ ملکِ عدم ہونے سے باخبر کرنا ہوتا ہے۔ نیز، ان تجزئیات سے ادبی سماجیات کے رجحانات، ادبی خدمات اور موضوعات کے تنوع کا اندازہ لگانے کے لیے ایک لینڈ اسکیپ بھی تیار ہوجاتا ہے۔
سال 2023ء اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ رخصت ہوگیا۔ اس دوران میدانِ ادب میں جوکارہائے نمایاں انجام دیئے گئے، آئیے، اُن پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
ادبی تقاریب:یوں تو سال بَھر ہونے والی تقریبات ہی سماجی رویّوں، معاشرتی تبدیلیوں، امن و یک جہتی، پیشہ ورانہ ترقی، سیّاحتی کشش، اجتماعی تعاملات اور قوم کا مزاج سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تاہم، کراچی میں ہونے والی ادبی تقریبات اس لحاظ سے اہم سمجھی جاتی ہیں کہ ان میں حقیقتاً پورے پاکستان کی نمائندگی ہوتی ہے، اور پھر آرٹس کائونسل، کراچی نے تو اس کادائرہ وسیع کرکے اکنافِ عالم تک پہنچادیا ہے۔ صدر، آرٹس کائونسل، کراچی محمد احمد شاہ کی سربراہی میں اس سال سولہویں چار روزہ ’’عالمی اردو کانفرنس‘‘ اب تک کی تمام کانفرنسز سے زیادہ کام یاب رہی۔
کانفرنس میں مختلف ممالک اور شہروں سے تعلق رکھنے والے فنونِ لطیفہ سے وابستہ مندوبین اور نسلوںکے ملاپ نے اسے اہم بنادیا۔ یہی نہیں، سالِ گزشتہ آرٹس کائونسل نے ’’پاکستان لٹریچر فیسٹیول‘‘ کے عنوان سے پورے ملک میں ادبی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور مظفر آباد، لاہور، سکھر میں نہایت شان دار فیسٹیولز کاانعقاد کرکے چھوٹے، بڑے شہروں کی تفریق ختم کردی۔
سال بھر ہونے والی دیگر اہم تقریبات میں چوتھی عالمی حمد و نعت کانفرنس، سیرت کانفرنس، تیسری کل پاکستان اہلِ قلم کانفرنس، ادب فیسٹیول، کراچی لٹریچر فیسٹیول، اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول، ملتان لٹریری فیسٹیول، فیصل آباد لٹریچر فیسٹیول، عشق آباد جشنِ جون ایلیا، جشنِ صباحت واسطی اور جشنِ افتخار عارف کے علاوہ فیض میلہ، ایاز میلو، کراچی انٹرنیشنل بک فیئر، تین روزہ کتاب میلہ، دو روزہ بین الاقوامی فکرِ اقبال کانفرنس، ہڑپہ فیسٹیول، ساکنانِ شہرِ قائد مشاعرہ اور لمزمیں ایک روزہ کانفرنس وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ سال بھر حلقۂ اربابِ ذوق، نظم فائونڈیشن اور رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے پابندی سے ادبی نشستوں کا اہتمام کرتے رہے۔ کچھ اداروں نے ادبی موضوعات پر خصوصی لیکچرز کا سلسلہ بھی جاری رکھا، جن میں آرٹس کائونسل کراچی اور مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور قابلِ ذکر ہیں۔
گزشتہ برسوں کی طرح 2023ء میں بھی کتب کی اشاعت جاری رہی اور عددی اعتبار سے ادبی کتب زیادہ شائع ہوئیں، جو یقیناً خوش آئند امر ہےکہ اس طرح کی کتب زبان کی بقا، نت نئے موضوعات کے پھیلائو اور ثقافتی تبادلے میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ سالِ رفتہ جس کتاب پر سب سے زیادہ مکالمہ ہوا، وہ ڈاکٹر ناصر عباس نیّرکی کتاب ’’نئے نقّاد کے نام خطوط‘‘ تھی۔ کسی ادبی شخصیت کےکام کو کلیّت میں دیکھنا، کئی لحاظ سےاہم ہوتا ہے کہ اس طرح شخصیت کے کام کی نوعیت، فکری ارتقا، فنی ریاضت اور مختلف زمانوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگہی ممکن ہوجاتی ہے۔
یہی سبب ہےکہ ہرسال مختلف ’’کلیّات‘‘ شائع ہوتے ہیں، جن سے شاعر یا مصنّف کے فکری اورادبی ارتقاء کا ضخیم مجموعہ حاصل ہوجاتا ہے۔ گزشتہ برس بھی کئی کلیّات شائع ہوئے۔ جن میں کلیّاتِ میردرد (تربیت وتدوین: سحرانصاری)، کلیّاتِ منیرنیازی، یک جا (کلیّاتِ خورشید رضوی) کلیّاتِ فروغ احمد، ثمرحیات کا (سعید احمد اختر)، کلیّاتِ مشیر کاظمی (جمع و ترتیب: ثقلین کاظمی)، کچھ محبت، کچھ بےبسی (انورسن رائے) اَن کہی بات کادُکھ (فاطمہ حسن) اورمکمل، نامکمل (انور جمال) کے علاوہ تحقیق پر مبنی ’’معتوب کتابیں‘‘ (عقیل عباسی جعفری) شامل ہیں۔
شاعری پر طبع شدہ کتب:شعر و سخن کی بات کی جائے، توشاعری کی کتب زیادہ تعداد میں شائع ہوئیں۔ یہ کتابیں نہ صرف پاکستان میں موجودہ شعری رجحانات ظاہر کرتی ہیں، بلکہ فکری زندگی کی حقیقتوں، احساسات و تجربات کا بھرپور،مؤثر اظہار بھی فراہم کرتی ہیں۔ یہاں تمام کتب کا ذکر توممکن نہیں۔ تاہم، چند کے نام یہ ہیں۔ تار تار پیرہن (کشور ناہید)، اے آسماں نیچےاُتر(محمّد اظہار الحق)، ابھی کپڑے بدن پر ہیں۔ (رفیع الدین راز)، خزانہ ہائے غمِ دہر کے فقیر (صابر ظفر)، نفیری (خالد اقبال یاسر)، بات بھی کوئی ہو (احسان اکبر)، ایک کمرے کی تنہائی (قمررضا شہزاد)، چراغ روشن ہے (عارف امام) بعداز خدا (عابد رشید، نعتیہ کلام)، آگ میں اُجالا ہے (رانا سعید دوشی)، نم (کبیر اطہر)، حاصل، لاحاصل (رضیہ سبحان)، کتنے یُگ بیت گئے (ثروت زہرا)، عشق سمندر (باسط جلیلی)، کام آتی ہے رائیگانی بھی (کاشف حسین غائر)، زندگی کلیشے ہے (افتخار حیدر)، رات کی راہ داری میں (سجّاد بلوچ)، دُعائوں بھرے دالان ( حمّاد نیازی)، یونہی (ادریس بابر)، یہ عشق ہے(عرفان ستار)،درزیں (طالب انصاری)، پل کی سلوٹ پہ (شہزاد اظہر)، عشق رقاص (افتخار فلک کاظمی)، دانستہ (شاعرعلی شاعر)، کاریزوں میں بہتا پانی (صادق مری)، ہیکل اور منکشف (طارق جاوید)، الگ راستوں کا دُکھ (طلعت بشیر)، گھنٹیاں (طاہر شیرازی)، عشق کی تمازت تھی (رخشندہ نوید)، ابجد (دلاورعلی آزر)، انفراد (آزاد حسین آزاد)، رقص ہوا (سعید راجا)، ابھی تک خواب کے زیرِاثر ہوں (کاشف ہاشمی)، رف عمل(حمزہ یعقوب)، کتنے موسم خواب ہوئے(طارق بٹ)، چراغ پلکوں پر (زیداللہ فہیم)، آسودگی (ممتاز راشد لاہوری)، ردِّعمل (اکمل حنیف)، مجال (اشفاق احمد ورک)، تکیہ (پروین سجل)، ہاتھ پہ آئی دستک (کومل جوئیہ) اوراوڑھنی (جاناں ملک)۔
ان میں کئی مجموعے صرف نظموں/نثری نظموں کےبھی ہیں۔ مذکورہ بالاکُتب کے علاوہ مصطفیٰ زیدی کا شعری مجموعہ ’’زنجیریں‘‘ شائع ہوا، جس میں اُن کے غیرمدوّن قطعات، نظمیں اورمضامین شامل ہیں، اس کی تحقیق و تدوین، فہیم شناس کاظمی نے کی۔ معاصراردوغزل کا انتخاب ’’ادیب نگر‘‘ کے نام سے شائع ہوا، جس کےمرتّب شہزاد اُفق ہیں، جب کہ شاعری کی ایک اہم کتاب ’’عشق نامہ شاہ حسین‘‘ بھی شائع ہوئی، جس میں کافیوں کا ترجمہ اور تحقیق و تنقید فرّخ یار کی ہے۔
ناولز:عام زندگی کےاہم،اجتماعی موضوعات پر مبنی ناول، عوام النّاس کو سوچنے سمجھنے، اجتماعی ومعاشرتی مسائل پرغور کی ترغیب دیتےہیں، تونئی سوچ، جدید فکرسے بھی دوچار کرتے ہیں۔ اسی لیے یہ بہت ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ حالاں کہ یہ ایک مشکل فن ہے۔ سال گزشتہ شائع ہونے والے اہم ناولز میں انجام بخیر (محمود شام)، جہاں آباد کی گلیاں (اصغر ندیم سیّد)، مکھوٹا (نجیبہ عارف)، ہڑپّا (طاہرہ اقبال)، لواخ (اختر رضا سلیمی)، موکش (غافر شہزاد)، روحزن (رحمٰن عباس)، دورِ شاعری (سیّد محمد میرزا مہذب لکھنوی، ترتیب و تصحیحِ متن، محمد افتخار شفیع) تھر کی سرگوشی (ناہید سلطان مرزا)، غروبِ شہر کا وقت (اسامہ صدیق)، مقدّس گناہ (نیناں عادل) اور سیاہ ہیرے (ثمینہ نذیر) وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ میاں شمس الحق کے دو ناولٹ ’’سازِ ہستی‘‘ کے عنوان سے اور زبیر حسن کا ایک خُوب صُورت ناولٹ ’’ایکسو پرستی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
افسانے:افسانہ ایک مختصر داستانی اظہار ہے، جو مختلف موضوعات پر مبنی ہوتا ہے۔ افسانے، قاری کو نئے فکری زاویوں اور زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کرواتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ افسانہ عام انسان کی زندگی میں خاص مقام رکھتا ہے۔ ہر سال کی طرح گزشتہ برس بھی افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہوئے، جن میں احوال و آثار(مبین مرزا)، کوئی کہکشاں نہیں ہے (شہناز شورو)، پہلی چُپ کا شور (مہ جبین آصف)، سیانی دیوانی (نور ظہیر) جب کہ ’’نصف صدی کا قصّہ‘‘ کے عنوان سے سیّد محمد اشرف کے افسانوں کے کلیّات کے علاوہ ’’ابنِ آس کے ڈرامے‘‘ نامی کتاب بھی شائع ہوئی۔
ان کتابوں کے علاوہ تنقید، سوانح، یادداشتوں اور مکتوبات کے مجموعے بھی شائع ہوئے، جن سے زندگی کے مختلف معاشرتی، ثقافتی اور فکری پہلوئوں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کہ یہ مجموعے معاشرتی تبدیلیوں، تحقیق و تربیت، تاریخ و ثقافت سے شناسائی کے ساتھ باہمی تعلقات کی راہ ہم وار کرتے ہیں۔ اُن میں ’’آدمی‘‘ (عرفان جاوید:خاکوں کا مجموعہ)،’’دھوپ چھائوں‘‘ (بریگیڈیئرنعمان الحق فرخ)، ’’گزرے دن‘‘ (حسن منظر:خودنوشت)، ’’بیگم سمرو‘‘ (رضا علی عابدی)، ’’باقیاتِ اقبال‘‘ (تقی عابدی)، ’’انتظار حسین اور عمرمیمن‘‘ (ترتیب:مشتاق احمد)، ’’ایک اور رُخ‘‘ (یاسمین حمید)، ’’معانی کی صبحیں‘‘ (راشد کی نظمیں اور مطالعات:مشتاق احمد)، ’’روزنِ تشکیک (انوار احمد:تنقید)، ’’نسیمِ سحر کی تخلیقی دھنک‘‘ (علمی و اطلاقی تنقید:اکرم کنجاہی)، ’’دبستانوں کا دبستان‘‘: پانچویں جِلد (تحقیق و تصنیف احمد حسین صدیقی، ترتیبِ نَو، معین الدین عقیل)، ’’اسد محمد خان کی افسانوی شعریات‘‘ (انتقاد و تجزیات۔ تحقیق و ترتیب:محمد عامر سہیل)، ’’مجموعۂ تقاریظ‘‘ (میاں نذیر اختر:تحقیقی مضامین)، ’’اردو ناول جدید تعبیرات و تجزیات‘‘ (سیّدہ اُم البنین بخاری، تنقید)، ’’اردو مزاح کی تاریخ‘‘ (اشفاق احمد ورک۔ تذکرہ ) ’’اِکتساب‘‘ (سیّد عامر سہیل:تحقیقی مضامین)، ’’خوبانِ حرف و معنی‘‘ (نسیم سیّد)، ’’اُردو کا اِدراکی تنقیدی دبستان‘‘ (فرحت عباس شاہ)، ’’جون ایلیا:حیات اورشاعری‘‘ (نیہا اقبال)، ’’کابوس‘‘ (مسلم انصاری)، ’’راہِ سخن‘‘ (نصیر احمد چوہدری:یادیں)، ’’موقف کی تلاش‘‘ (خاورنوازش:تنقید)، ’’جاپان میں اردو مکتوب نگاری:ڈاکٹر معین الدین عقیل کے نام جاپانی مصنّفین اور اساتذہ و طلبہ کے اردو مکاتیب‘‘ (تقدیم، تدوین و تحشیہ:عامر علی خان)، ’’مشاہیر کے خطوط، بنام عطا الحق قاسمی‘‘، ’’جدید اردو شہرِ آشوب‘‘ (سیّد مرتضیٰ حسن شیرازی)، ’’ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا :حیات و فن‘‘ (عشرت سلطانہ)، ’’احمد ندیم قاسمی: خاکوں اور یادوں میں‘‘ (شاہد حنائی)، ’’اُجالے‘‘ (جاوید صدیقی، خاکے)، ’’متن، زبان اور معنی‘‘ (محد شاہد حفیظ)، ’’ہنگامِ سفر‘‘ (سیّد عامر محمود۔ دنیا کے خُوب صُورت شہروں کے سفرنامے)، ’’گ سے گڑیا، ج سے جاپانی (محمد کامران۔ سفرنامہ)، ’’فکشن سے مکالمہ‘‘ (اقبال خورشید۔انٹرویوز) اور ’’حروفِ معتبر‘‘ (سعدیہ سراج:نثری مضامین، انٹرویوز، کہانیاں، تبصرے) شامل ہیں۔
تراجم:آج کے دَور میں مختلف ممالک اور شعبوں میں تعلقات، تبادلۂ فکر نے ترجمے کی اہمیت و ضرورت میں اضافہ کردیا ہے۔ گزشتہ برس شائع ہونے والے تراجم میں ’’بیس ویں صدی کا اردو ادب‘‘ (ترجمہ ٹوئنٹتھ سنچری اردو لٹریچر، مصنّف، ڈاکٹر محمد صادق، مترجم،:ظفر حسن رضا)، ’’کیتھرائن مینسفیلڈ کے بہترین افسانے‘‘ (ترجمہ:صہبا جمال شازلی)، ’’مُردہ لشکر کا سپہ سالار‘‘ البانوی ناول (مصنّف،اسماعیل کدارے، مترجم :قربان چنّا)، ’’قیدی‘‘ (ناول۔ مصنّف:عمر شاہد حمید، مترجم:انعام ندیم۔انگریزی سے ترجمہ)، ’’مِرے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں‘‘ (نجوان درویش کی منتخب نظموں کا انگریزی سے ترجمہ۔ مترجم: حماد نیازی) شامل ہیں۔
رسائل و جرائد:دنیا کی کسی بھی زبان کی طرح اُردوزبان میں بھی شائع ہونے رسائل و جرائد کی خاصی اہمیت ہے کہ ان جرائد سے تازہ ترین ادبی تخلیقات، رجحانات اور موضوعات کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ یہ رسائل و جرائد فنون و ادب اور ثقافتی موضوعات و مباحث کو فروغ دیتے ہیں، تونئے لکھنے والوں کو بھی متعارف کرواتے ہیں۔ نیز، مختلف نظریات اور فکری تنوّع پیش کرتے ہیں۔ گزشتہ سال سنگِ میل کی جانب سے ایک نئے ادبی جریدے ’’رنگ‘‘ کا اجرا ہوا، جس کے نگراں، افضال احمد اور مدیر،مشتاق احمد ہیں۔ علاوہ ازیں، دیگر رسائل و جرائد بھی پابندی سے شائع ہوتے رہے، جن میں کچھ نے ’’خاص نمبر‘‘ بھی شائع کیے، خصوصاً میرتقی میر کے 300سالہ جشنِ ولادت کی مناسبت سے کئی جرائد نے میر تقی میرنمبراور گوشے شائع کیے۔ ان رسائل و جرائد میں نعت رنگ، جہانِ حمد، رثائی ادب، سائبان، ادبِ لطیف، بنیاد، مکالمہ، آج، نقاط، ادبیات، ادبیت، بازیافت، الحمرا، سویرا، چہارسُو، مُرغ زار، نمود، بیاض، قومی زبان، اطراف، غنیمت، اِدراک، عِلم، صحیفہ، ادبِ معلّیٰ، اوراقِ ادب، تجزیات، خیال و فن، دستک، ورثہ، رنگِ ادب، ماہِ نو، لوحِ ادب، ارقم، آثارِ سیرت، بنیاد، الحمد، تسطیر، کولاژ، ارتعاش، ارژنگ، آثار، اُردو، عکّاس، فنون، اسپوتنک، تلازمہ، نزول، تحقیق، معیار، راوی، قرطاس، الزبیر، عِمارت کار، بیلاگ، دنیائے ادب، الماس، قلم قبیلہ، انگارے، فکر و نظر، سنگت، کہانی گھر، پاکستان شناسی، پیامِ اُردو، امتزاج، ارتفاع، ثالث، سوچ، جمالیات، تفہیم، الاقربا، آہنگ، اخبارِ اردو، ابجد، نوارد، انہماک، تہذیب، دھنک، اُردو کالم، پیام آشنا، انشاء، دریافت، تعبیر، ادب و کتاب خانہ اور فن زاد وغیرہ شامل ہیں۔
وفیات:سالِ رفتہ جو ادبی شخصیات ہم سے جُدا ہوگئیں، اُن میں امجد اسلام امجد، توصیف تبسّم، احمد سلیم، مقصود الہیٰ شیخ، سلطان رشک، سیّد قمر زیدی، شارق جمال، شبّیر احمد قرار، ہدیہ ظفر، تسنیم منیر علوی، اسلم طارق، انیلا حبیب، قمر صدیقی، ابرار احمد اور کوثر محمود شامل ہیں۔