اسلام آباد (رپورٹ، رانامسعود حسین) سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کا فیصلہ سناتے ہوئےسیاستدانوں کی تاحیات نااہلی ختم کر دی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مختصر فیصلہ خود پڑھ کر سنایاجو براہ راست نشر کیا گیا، عدالت نے سمیع اللہ بلوچ نااہلی کیس کے فیصلے کو ختم کردیا، تاحیات نااہلی سے متعلق یہ فیصلہ 1-6 کی اکثریت سے سنایا گیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نےفیصلے سے اختلاف کیا، عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے تحت نا اہلی کی مدت 5 سال، آرٹیکل 62 ون ایف میں درج نہیں کہ کورٹ آف لاء کیا ہے، ایسا کوئی قانون نہیں جو واضح کرے کہ نااہلی کا طریقہ کار کیا ہوگا، چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابی شیڈول جاری ہونےکے بعد ضروری تھاکہ یہ فیصلہ فوری سنایا جاتا، عدالتی فیصلے کی روشنی میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کی نااہلی کی آخری رکاوٹ بھی ختم ہوگئی، عدالتی فیصلے سے نواز شریف، جہانگیر ترین سمیت متعدد سیاستدانوں کو ریلیف ملے گا وہ 8 فروری کا الیکشن لڑ سکیں گے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت صادق اور امین نہ ہونے کے مرتکب عوامی نمائندوں کی تاحیات نااہلیت سے متعلق سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں اور الیکشنز (ترمیمی) ایکٹ2023کی عوامی نمائندہ کی عوامی عہدہ سے ناہلیت کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہ ہونے سے متعلق دفعہ 232میں واضح تضاد کی بنا پر پیدا ہونے والے ابہام کو دور کرنے سے متعلق مقدمہ کا مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عوامی نمائندوں کی تاحیات نااہلیت ختم کردی ہے اور قراردیاہے کہ نااہلیت کی مدت پانچ سال ہوگی۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سات رکنی لارجر بینچ نے جمعہ 5جنوری کوکیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ مقدمہ کی تمام تر کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست نشر کی گئی تھی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیر کے روز کھلی عدالت میں مختصر فیصلہ پڑھ کرسنایا۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد ضروری تھا کہ فیصلہ فوری سنایا جائے۔ انہوں نے تمام برادر ججوں، وکلا اورامائیکس کیورائے ( عدالت کے دوستوں ) کا شکریہ ادا کیا۔ عدالت نے اپنے سات صفحات پر مشتمل اکثریتی فیصلے میں قرار دیاہے کہ عوامی نمائندں کی نااہلیت تاحیات نہیں ہوگی اورالیکشنز(ترمیمی)ایکٹ2023کی دفعہ 232کے تحت عوامی نمائندہ کی عوامی عہدہ سے نااہلیت کی مدت 5 سال ہوگی،عدالت نے سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ ختم کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کو اکیلا نہیں پڑھا جاسکتاہے ،عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیاہے کہ سپریم کورٹ کے پاس آئین کے آرٹیکل 184 (3) میں کسی عوامی نمائندہ کی نااہلیت کا اختیار ہی نہیں تھا ،عدالت نے قرار دیاہے کہ نااہلیت کی مدت کا قانون( الیکشنز (ترمیمی) ایکٹ2023 پہلے ہی موجود ہے اسے جانچنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح عدالتی ڈیکلریشن کے ذریعے آئین کو ریڈ اِن کرنا ہے، ڈیکلریشن دینے کے حوالے سے قانون کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے ،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف میں درج نہیں ہے کہ کورٹ آف لاء کیا ہے؟ آرٹیکل 62 ون ایف واضح نہیں کرتا ہے کہ ڈیکلریشن کس نے دینا ہے؟ آرٹیکل 62 ون ایف میں درج نہیںہے کہ نااہلیت کی مدت کتنی ہوگی؟ ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جو یہ واضح کرے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلیت کا طریقہ کار کیا ہوگا؟فیصلے کے متن کے مطابق ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو واضح کرے کہ آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کیا ہوگی؟ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ 62ون ایف کے تحت نااہلیت فیئر ٹرائل اور قانونی تقاضوں کے مطابق ہے یا نہیں؟بنچ کے رکن ،جسٹس یحیی آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں قلمبند کیا ہے کہ عدالت کا سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ برقرار رہنا چاہیے، سمیع اللہ بلوچ کیس کا تاحیات نااہلی کا فیصلہ قانونی ہے اور نااہلی تب تک برقرار رہے گی جب تک ڈکلیئریشن موجود رہے گا،عدالت نے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی اپیل واپس لینے کی بناء پر خارج کردی ہے ،عدالت نے اس معاملہ کے حوالے سے دائر کی گئی متعدد اپیلوں کو خارج کردیایا نمٹا دیا ہے جبکہ چند انفرادی سطح کی اپیلوں کو ملتوی کرتے ہوئے انہیں بعد میں موزوں بنچوں میں سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم بھی جاری کیا ہے ۔