اسلام آباد( رپورٹ:رانا مسعود حسین )سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن بھی مستعفی ہوگئے، ان کا استعفیٰ صدر مملکت کو موصول ہوگیا ، جبکہ جسٹس مظاہر نقوی کا استعفیٰ صدر نے منظور کرلیا،جسٹس منصور سینئر ترین جج ہونگے، جسٹس اعجاز الاحسن کو اکتوبر میں چیف جسٹس بننا تھا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے سابق جج ،مظاہر علی اکبر نقوی کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج،جسٹس اعجاز الاحسن بھی مستعفی ہوگئے ہیں ،انہوں نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا ہے جس انہیں موصول ہوگیا ہے اور صدر ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ منظور کرلیا ہے۔
اس حوالے سے وزارت قانون و انصاف کے سیکرٹری راجہ نعیم اکبر نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل179 کے تحت جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ منظور کیا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر کی گئی تھی اور جمعرات 11 جنوری کو اس کی سماعت ہونا تھی۔
جسٹس اعجاز الاحسن، سپریم کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں تیسرے سینئر ترین جج تھے چونکہ سنیارٹی لسٹ کے دوسرے سینئر ترین جج جسٹس سردار طارق مسعود نے 10 مارچ2024 میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہوجانا ہے اس لئے جسٹس اعجاز الاحسن نے رواں سال ماہ اکتوبر میں اگلا چیف جسٹس آف پاکستان بننا تھا اور اگست 2025 میں ریٹائر ہوجانا تھا، جسٹس اعجازالاحسن کے استعفیٰ کی منظوری کی صورت میں جسٹس سردار طارق مسعود کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس سید منصور علی شاہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہوں گے اور بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی 25 اکتوبر 2024 کو ریٹائرمنٹ کے بعد سینیارٹی کے لحاظ سے وہ چیف جسٹس آف پاکستان بن جائیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفیٰ کی منظور ی کے فوری بعد ہی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اورسپریم جوڈیشل کونسل میں بھی واضح تبدیلیاں ہوجائیں گی، سینیارٹی کے لحاظ سے جسٹس منصور علی شاہ سپریم جوڈیشل کونسل کے تیسرے ممبر بن جائیں گے جبکہ جسٹس یحیٰ آفریدی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا حصہ بن جائیں گے ۔
یاد رہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن نہ صرف پاناما پیپرز لیکس کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کا حصہ تھے بلکہ بعد ازاں میاں نواز شریف کے خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز میں نگران جج بھی مقرر ہوئے تھے،یہ بھی یاد رہے کہ جسٹس اعجازالاحسن نے دو روز قبل ’’اختیارات کے ناجائز استعمال ،مقدمات پر اثر انداز ہونے اور آڈیو لیک سکینڈل‘‘ کی بنا پر آئین کے آرٹیکل 209کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں درج شکایت پر ہونے والی کارروائی کا سامنا کرنے والے سپریم کورٹ کے سابق جج مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی سے اختلاف کرتے ہوئے ملزم جج، مظاہرنقوی کو دوسرے شوکازنوٹس کے اجراء پر ایک نوٹ بھی لکھا تھا جس میں انہوں نے شوکازنوٹس واپس لینے کی رائے دیتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی غیرضروری عجلت میں کی جا رہی ہے ،اور یہ کارروائی قانونی تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ کارروائی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ماضی میں دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی نفی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو اپنے آئینی اختیارات نہایت احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے،مظاہر نقوی کے معاملے میں نہ تو کوئی غوروفکر کیا گیا اور نہ ہی اس کی اجازت دی گئی ہے۔
انہوں نے قراردیا تھا کہ مظاہر نقوی پر لگائے گئے الزامات بغیر ثبوت اور میرٹ کے خلاف ہیں۔