اسلام آباد( رپورٹ:، رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں بھی سقم ہیں‘عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں انتخابی نشان اور سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم تو جاری کر دیا ہے لیکن انٹرا پارٹی الیکشن پرڈ کلریشن نہیں دیا ہے‘.
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اور کوئی بھی ادارہ اس کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتا‘پی ٹی آئی والے کبھی لاہور ہائیکورٹ جاتے ہیں کبھی پشاور چلے جاتے ہیں ،’’فورم شاپنگ ‘‘کا لفظ میں استعمال نہیں کرنا چاہتا ‘فورم شاپنگ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جب ایک جگہ سے ریلیف نہ ملا تو دوسری جگہ بھاگو‘اس طرح تو سسٹم خراب ہو جائے گا‘انٹراپارٹی انتخابات کہاں ہوئے؟
ہوٹل میں یا کرکٹ گراؤنڈ میں؟ ورکرز کو بتایا گیا یا نہیں؟اس کا مطلب ہے پی ٹی آئی نے اپنے آئین کی خلاف ورزی کی‘لگتا ہے دو عدالتوں سے رجوع کرکے پی ٹی آئی نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری‘ انٹراپارٹی انتخابات درست نہ ہوئے تو پی ٹی آئی کو نتائج کا سامنا کرنا ہوگا‘.
اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ انٹراپارٹی الیکشن کیلئے خیبرپختونخواکے ایک چھوٹے سےگمنام گاؤں نورگڑھی کا انتخاب کیوں کیاگیا؟۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج دن دس بجے تک ملتوی کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل کو ہدایت کی ہے وہ تین سوالات کا جواب دیں کہ پی ٹی آئی کے آئین میں انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد کا ذمہ فیڈرل الیکشن کمشنر کو سونپا گیا ہے تو زیرغور انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد میں چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی کا لفظ کیوں لکھا گیاہے؟
انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے فیڈرل الیکشن کمشنر سمیت سات ارکان کا بورڈ بنتا ہے، کیا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں دیگر چھ صوبائی الیکشن کمیشن ممبران نے دستخط کیے ہیں اور اگر دستخط کیے گئے ہیںتو ان کی دستاویزات کہاں ہیں، اگر دستخط نہیں کیے گئے تو کیا وجوہات ہیں.
الیکشن کمشنر کا تقرر سیکرٹری جنرل کرتا ہے اور پی ٹی آئی ریکارڈ کے مطابق پارٹی سیکرٹری جنرل اسد عمر تھے لیکن زیر غور معاملے میں عمر ایوب نے چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا ہے،کیا اسد عمر نے استعفیٰ دیاتھا یا انہیں نکالا گیا تھا؟عدالت نے رجسٹرار آفس کو ہدایت کی ہے کہ رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ سے رابطہ کرکے بتائیںکہ کیا کیس کا تفصیلی جاری ہوچکا ہے اور اگر نہیں تو کب تک آجائے گا؟
چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ اس معاملہ میں بار ثبوت پی ٹی آئی پر ہے کیونکہ اس نے دستاویزات سے ثابت کرنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی آئین کے مطابق منعقد ہوئے تھے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعہ کے روزکیس کی سماعت کی تو الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی آئین کے مطابق نہیں ہوئے ‘جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا پی ٹی آئی نے رٹ میں الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا تھا ؟مخدوم علی خان نے کہا کہ استدعا صرف بلے کانشان واپس کرنے اور سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر جاری کرنے کی تھی.
چیف جسٹس نے کہا کہ جہاں تک آرٹیکل 25کا معاملہ ہے تو الیکشن کمیشن بتائے کہ یہ برتاؤ صرف پی ٹی آئی کے ساتھ ہے ؟یا سب جماعتوں کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا ہے؟جس پرالیکشن کمیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ 13جماعتوں کی رجسٹریشن ختم کی گئی ہے.
چیف جسٹس نے کہا ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے ساتھ الیکشن کمیشن کا رویہ اب سخت ہوگیا ہے؟توالیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی درخواست پر ایک سال کی مہلت دی گئی تھی،چیف جسٹس نے کہا کہ اتنی سخاوت ،جب تک پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو الیکشن کمیشن نے نرمی کی لیکن خط و کتابت ہورہی تھی.
مخدوم علی خان نے بتایا کہ تمام عہدیدار بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ چیک کرکے بتائیں کہ باقی جماعتوں میں بھی انتخاب بلا مقابلہ ہوا یا صرف پی ٹی آئی کے کیس میں ایسا ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ہی معاملے پر دو ہائی کورٹوں کی رائے میں تضاد آگیا ہے، اب اس کا کیا کریں گے؟
انہوںنے کہاکہ یہاں سے ریلیف نہ ملے تو اس ہائی کورٹ میں جائے، یہ سسٹم کو خراب کرنے والی بات ہے،انٹرا پارٹی الیکشن پشاور کے مضافات میں کرانے کے سوال پر حامد خان نے کہا کہ سیکورٹی مسائل کی وجہ سے اس جگہ کا انتخاب کیا گیاتھا.
عدالت کے استفسار پرانٹرا رپارٹی انتخابات کے کئے مقر رکئے گئے چیف کمشنر نیاز اللہ نیازی نے بتایا کہ وٹس ایپ پر ممبران کو لوکیشن کا بتایا گیا تھا۔