اسلام آباد (عمر چیمہ) فضائی حملے سے کچھ دیر قبل اگرچہ ایرانی وزیر خارجہ کی ڈیووس فورم کے موقع پر وزیراعظم پاکستان سے ملاقات ہوئی لیکن انہوں نے اپنے ملک کے منصوبے کے حوالے سے کوئی اشارہ نہیں دیا۔ وزیراعظم انوار کاکڑ کیساتھ سفر کرنے والے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ملاقات کے دوران ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے ملک کے حوالے سے اگر کوئی تحفظات تھے بھی تو وہ شیئر نہیں کیے۔ ملاقات کے بعد جب وزیراعظم کو اس حملے کا پتہ چلا تو وہ حیران ہوئے۔ چونکہ صورتحال سنگین ہوگئی ہے، کاکڑ اپنا دورہ مختصر کرکے آج پاکستان واپس آ رہے ہیں۔ وہ بدھ کو رات دیر تک واپس پہنچنا چاہتے تھے لیکن فلائٹ شیڈول کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا کیونکہ وہ کمرشل پرواز سے سوئٹزرلینڈ گئے تھے۔ حملے کے حوالے سے ایران نے مکمل طور پر رازداری سے کام لیا۔ یہ حملہ کرنے والی ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی حمایت یافتہ نیوز ایجنسی نے پہلے خبر جاری کی لیکن پھر واپس لے لی۔ دوسری جانب پاکستان نے ایرانی ناظم الامور کو طلب کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور بعد میں تہران میں تعینات اپنے سفیر کو نہ صرف واپس بلا لیا بلکہ پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر (جو فی الوقت تہران میں تھے) کا واپس استقبال کرنے سے بھی انکار کر دیا ۔ یہی وہ وقت تھا جب ایران نے اپنی خاموشی ختم کی اور ذمہ داری تسلیم کی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ حملہ پاکستان کے اندر کیا گیا ہے تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ حملے کا ہدف دہشت گرد گروپ جیش العدل تھا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ تنظیم اسرائیل سے تعلق رکھتی ہے۔ القاعدہ سے تعلق رکھنے والی ایک اور تنظیم جند اللہ اسی جیش العدل کی سربراہ جماعت ہے۔ اس کے بانی عبدالمالک ریگر کو ایران نے 2010ء میں گرفتار کرکے پھانسی دیدی تھی۔