لاہور (آصف محمود بٹ) لاہور ہائیکورٹ نے چیف انفارمیشن کمشنر کو عہدے سے ہٹائے جانے کے حکم کو معطل کرنے کے بعد کمیشن کے دیگر دونوں انفارمیشن کمشنرزہٹائے جانے کے احکامات معطل کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو 30جنوری کو جواب داخل کرنے کا حکم دیا۔ انفارمیشن کمشنرز ڈاکٹر عارف مشتاق اور چوہدری شوکت کے وکیل وقاراے شیخ نے کیس کے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ محض کمنٹس جلد داخل نہ کروانے کو مس کنڈکٹ قرار دے کر عہدے سے ہٹائے جا ناعدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 19 (جی) آر ٹی آئی ایکٹ 2013کے مطابق مس کنڈکٹ کی تعریف ابھی کیا جانا زیرالتوا ہے اور اس پر قانون خاموش ہے۔ سپریم کورٹ کے100سے زائد فیصلے موجود ہیں جن کے مطابق عہدے سے ہٹائے جانے کی بڑی سزا اس وقت تک نہیں دی جا سکتی جب تک اس معاملے کی اوپن انکوائری کروا کے انصاف کے اصولوں کی روشنی میں ذمہ داری کا تعین نہ کر لیا جائے، وقار اے شیخ نے کہاکسی انفارمیشن کمشنر کو پنجاب اسمبلی سے اوپن انکوائری کروائے بغیر حکومت عہدے سے نہیں ہٹا سکتی۔ انہوں نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آر ٹی آئی ایکٹ 2013کے مطابق انفارمیشن کمیشن اپنے مالی، انتظامی و دیگر امور کی رپورٹ صرف پنجاب اسمبلی کو پیش کرنے کا پابند ہے۔ پنجاب اسمبلی نے 2021میں آر ٹی آئی ایکٹ 2013میں ترمیم کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی نے انفارمیشن کمیشن کو اپنی رپورٹس ہائے حکومت کے ذریعے ارسال کرنے کی بجائے براہ راست پیش کرنے کی قانون سازی کی۔