کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ کے آغاز میں میزبان سلیم صافی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چھ سال کے دوران پاکستان کا سیاسی اور حکومتی نظام اس قدر ہائی برڈبن چکا ہے کہ اب کئی حوالوں سے آرمی کا پلڑا بھاری ہوگیا ہے۔
اس تناظر میں وزیراعظم کے ساتھ ساتھ آرمی چیف کی شخصیت، سوچ اور اپروچ کو سمجھنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ جسے سہیل وڑائچ نے جنرل باجوہ کے دور میں ڈاکٹرائن کا نام دیا تھا۔ پروگرام میں ڈاکٹر خرم اشفاق قاضی اور آرٹسٹ علی گوہر نے بھی بات چیت کی۔
میزبان سلیم صافی نے اپنے تجزیے میں مزید کہا کہ گزشتہ روزموجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ہائر ایجوکیشن کے زیر اہتمام ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے نمائندہ تقریباً2 ہزار طلبا و طالبات سے 3 گھنٹوں پر محیط تبادلہ خیالات کیا۔جس سے ان کی سوچ اور اپروچ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ عاصم منیر کی ڈاکٹرائن کیا ہے ۔
ان کا خطاب اتنا جامع اور مفصل تھاکہ اس کے بعد جب نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑکو خطاب کے لئے بلایاگیا تو وزیراعظم نے کہا کہ آرمی چیف کے خطاب کے بعد ان کے کہنے کے لئے کچھ نہیں رہا۔آرمی چیف عاصم منیر نے حسب روایت ابتدائی تقریر کی اور بڑی حد تک دل کھول کر رکھ دیا۔
انہوں نے کہا کہ آج میری زندگی کا نہایت اہم دن ہے کیوں کہ میں پاکستان کے مستقبل یعنی نوجوانوں سے مخاطب ہورہا ہوں۔یہ نوجوان پاکستان کے اصل وسائل ہیں یہی نوجوان پاکستان کے روشن مستقبل کی گارنٹی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے آباؤاجداد نے ہندوؤں سے آزادی اس لئے حاصل کی ۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارامذہب، تہذیب ، رہن سہن ان سے مختلف ہے۔
آج اگر ہم نے مغرب سے متاثر ہونا ہے یا اس کی تہذیب کو اپنانا ہے تو سوال یہ ہے کہ ہندوؤں سے آزادی لینے کی کیا ضرورت تھی۔انہوں نے کہا کہ مغرب کے مقابلے میں ہمیں کسی احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔ ان کے مقابلے میں ہمارا مذہب اورتہذیب اعلیٰ ترین ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی تاریخ میں دو ریاستیں اسلام کے نام پر بنی ہیں ایک ریاست طیبہ اور دوسری ریاست پاکستان۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست مدینہ نہیں بلکہ ریاست طیبہ موضوع لفظ ہے۔پاکستان پر اللہ نے قدرتی وسائل کی صورت میں بے تحاشہ نوازشات کی ہیں۔
ذہنی انتشار اور اشتعال سوشل میڈیا پیدا کرتا ہے اس لئے میں اسے شیطانی میڈیا کہتا ہوں۔سلیم صافی نے مزید کہا کہ آج دو ایسی شخصیات ہمارے ساتھ ہیں جن کو سن کر اور دیکھ کرآپ کے لبوں پر شکر کے الفاظ آئیں گے بلکہ آپ ان سے حوصلہ بھی پکڑیں گے۔ ڈاکٹر خرم اشفاق قاضی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہوں میرا قد تین فٹ آٹھ انچ ہے۔ میں نے سافٹ ویئر انجینئرنگ میں2018 ء میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ میں اس وقت ہائر ایجوکیشن میں سینئر پروجیکٹ منیجر خدمات سر انجام دے رہا ہوں۔
آرٹسٹ (کوئٹہ) علی گوہرنے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں آرٹسٹ گرافکس ڈیزائنر ہوں ۔میرے ساتھ 9 سال قبل ایک حادثہ ہواجس میں اپنے دونوں بازو کھو دیئے۔
پیروں سے کمپیوٹر اور پین کا استعمال میں نے دو تین ماہ میں سیکھ لیا تھا۔سب سے بڑا چیلنج میرے ہاتھوں کے کٹنے کا تھا مجھے اپنے ہاتھوں کے کٹنے کا علم دو ہفتوں بعد ہوا۔وہ وقت بہت مشکل وقت تھااس نے مجھے زندگی میں نا امید بنایا تھامجھ میں جینے کی خواہش نہ تھی اس کے بعدمیں نے ٹراما سے کم بیک کیا۔