• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ باہر سے پی ایچ ڈی کر کے آگئی تھی، دنیا اور شوہرکے سامنے خُود کو بہت مضبوط ظاہر کرتی تھی، مگر اندر سے آج بھی چھوئی موئی جیسی ہی تھی، تب ہی لاہو ر کے لیے نکلنے سے پہلے مسلسل دُعائیں کررہی تھی کہ مولا! سفر خیریت سے کٹ جائے کہ ایک تو رات کاسفر، اُوپر سے بیمار امّاں جی کا ساتھ تھا۔ امّاں جی بےچاری بھی ایک بیماری کے حملے سے سنبھل نہ پاتیں کہ دوسری کیل کانٹے سے لیس چڑھ دوڑتی۔ جب تک لاہورمیں تھے، وقت، بے وقت ڈاکٹروں کے حضور حاضری اتنی تکلیف دہ محسوس نہ ہوتی، پرجب سے رضا پراجیکٹ کا مینیجنگ ڈائریکٹر بن کرسائٹ پرآیا تھا۔ لاہور والی سہولتوں سے محرومی بُری طرح کھٹکنے لگی تھی۔اب کچھ دنوں سےامّاں جی کی آنکھوں سے بہت پانی بہہ رہا تھا، تو آنکھوں کے اسپیشلسٹ کو دکھانا ضروری ہوگیا تھا۔

پلانٹ تکمیل کے آخری مراحل میں تھا۔ رضا کی سائٹ پرموجودگی ناگزیر تھی۔ یوں بھی جب سے اُس کی شادی ہوئی تھی، وہی ساس کو لیے لیےپِھرتی تھی۔ ساری تیاری اُس نے ڈیڑھ بجے تک مکمل کرلی۔دوبجےرضا لنچ کےلیےآیا تو اُسے بھی تفصیلات بتا دیں۔ تینوں بڑے بچّوں کووہ چھوڑے جارہی تھی۔ صرف چھوٹا بیٹا ساتھ جانے پربضد تھا۔ ’’مَیں نےلاہورآفس کے انچارج کو اطلاع کردی ہے۔ وہ اورڈرائیوراسٹیشن پر موجود ہوں گے۔‘‘ شوہر کی اِس بات سے اُس کا اچھا بھلا مُوڈ خراب ہوگیا۔ چمچ کو پلیٹ میں زور سے بجاتے ہوئے اُس نے تیکھی نگاہوں سے میاں کوگھورا اور بولی۔ ’’کیا ضرورت تھی اِس کی۔ لاہور کوئی اجنبی شہر ہے، جہاں میرے کھوجانے کا ڈر ہے۔‘‘ ’’ارے بھئی، امّاں تمھارے ساتھ ہیں۔ 

وہ ذمّےدار لوگ ہیں، حفاظت سے گھرچھوڑ آئیں گے۔ پھروقت، بے وقت ٹیلی فون کی سہولت حاصل رہےگی۔مَیں یہاں بیٹھا حالات سےمطلع رہوں گا۔‘‘ ’’توخالد اور ظہیر کو اطلاع کرتو دی تھی۔ تمھیں نہیں پتا رضا، یہ لوگ بہت باتیں بناتے ہیں۔ نجی محفلوں میں بیٹھ کر ایم۔ ڈی کی گھریلو زندگی پر تبصرے کرتے ہیں۔ اس کی بیوی کے ہیئر اسٹائل سے پائوں کے جُوتوں تک حاشیہ آرائیاں ہوتی ہیں۔ اور مَیں اپنے بارے میں کوئی بات نہیں سُننا چاہتی۔‘‘ ’’بلاوجہ پریشان ہورہی ہو۔ مَیں انسان کوپہچانتا ہوں۔ لاہور آفس کا انچارج ایسا نہیں۔ قابلِ بھروسا، قابلِ اعتماد آدمی ہے۔‘‘

اور پھر وہی ہُوا، جس کا اُسے ڈرتھا۔ گاڑی میں سوار ہوئے ابھی گھنٹہ بھی نہ ہوا تھا کہ امّاں جی کا بلڈ پریشر بڑھ گیا۔ ائیرکنڈیشنڈ کوپے میں وہ بھاگی بھاگی پِھری۔ ساری رات مشکل گزری۔ صُبح کے قریب اُن کی آنکھ لگی، تو وہ دوسری برتھ پر نیم درازہوگئی۔ لاہور اسٹیشن کب آیا اور گاڑی کب ٹھہری، وہ تو بےسدھ سی پڑی تھی۔ بچّہ بھی کونے میں دبکا سو رہا تھا۔ دروازے میں کھڑا ڈرائیور سمجھ نہ پائےکہ صاحب کی بیگم اور ماں کو کیسے بیدار کرے؟ پلیٹ فارم پر کھڑے نوجوان کو اِس نے صُورتِ حال سے آگاہ کیا اور پوچھا ’’اَب کیا کِیا جائے؟‘‘ دونوں آکر دروازے میں کھڑے ہوگئے۔ 

ڈرائیور نے پاؤں بجائے۔ بچّے کو بیدارکیا، تب کہیں جا کراُس کی آنکھ کُھلی۔ نیند سے بوجھل آنکھوں سے اُس نے دونوں کو دیکھا اور ساس پر جُھک گئی۔ داہنے بازو کا سہارا دے کر اُٹھایا۔ اپنے بکھرے بال سمیٹ کے دوپٹّا سر پرجمایا اورپھرآنے والے مَردوں کو دوبارہ دیکھا۔ ڈرائیورکو وہ پہچانتی تھی اور اب دوسرے نوجوان کو بھی پہچان چُکی تھی۔ آنکھوں سے نیند کا سارا اثر جیسے بھک سے اُڑ گیا۔

پر،یہ چند لمحے بڑے عجیب سےتھے۔ درمیانی وقت تو بیچ میں سے سرک گیا تھا۔ یوں جیسے ابھی کل کی بات ہو۔ مگر اُس وقت کے کل میں بڑی تلخی تھی۔ اُسی تلخی کے احساس نے اُس کے چہرے کےزاوئیے بدل دئیے تھے۔ ڈرائیور سے اُس نے کہا۔ ’’میرے بھائی شاید باہر ہوں۔ ذرا اُنہیں دیکھیے!‘‘اب وہاں صرف وہ رہ گیا تھا۔ پہلے صرف لڑکا سا تھا۔ اب لڑکے اور مرد کی درمیانی منزل پر کھڑا تھا۔ کیسے بے تُکے سےموڑ پر سامنا ہُوا تھا۔ 

اُس نے کھڑکی سے دیکھا، لوگ آجارہے تھے۔’’تم عُمر ہو ناں؟‘‘ اس نے اَن جان سی بن کر پُوچھا۔ سوال مہمل سا تھا۔ مگر کبھی کبھی صورتِ حال کو سنبھالنا دشوار ہو جاتا ہے اور جب ڈرائیور نے آکر کہا۔ ’’آپ کے بھائی باہر تو کہیں نظر نہیں آرہے۔‘‘تو وہ اُس وقت اپنی ساس سےعُمرکا اپنےعزیز کی حیثیت سے تعارف کروا رہی تھی۔ دونوں مَردوں نے بوڑھی عورت کو سنبھالا۔ اُس نےبچّے کوگود میں اُٹھایا اورایک دوسرے کے پیچھے چلتے باہرآگئے۔ جب وہ کار میں بیٹھ گئی، تومنہ باہر نکال کر بیگمانہ شان سےکہا۔ ’’رضاکافون آئے، تو بتادینا کہ ہم خیریت سے پہنچ گئے ہیں۔‘‘

رشتےداری بہت قریبی تھی اورنہ بہت دُور کی، مگر اُن کا بڑا بیٹا بی بی جان کو بےطرح بھا گیا تھا۔ بُہو کے پاس بیٹھ کر کہتیں۔ ’’ہاتھ پاؤں کا کُھلا، دل و دماغ کا اچھا، زبان کا رسیلا اور ماں باپ کا فرمان بردار ہے۔ بیٹی کے بھاگ کُھل جائیں، جو وہاں شادی ہوجائے۔‘‘ وہ سب کچھ سُنتی اور ہنستے ہوئے بھاوج سے کہتی۔ ’’ویسے ماں باپ کے حددرجہ فرماں بردار بیٹے نکمّے شوہر ثابت ہوتے ہیں۔‘‘ وہ ایم۔ اے کے آخری سال میں تھی۔ یونی ورسٹی میں انتخابات کا ہنگامہ زوروں پر تھا۔ وہ بڑی ایکٹیولڑکی تھی۔ غیرنصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتی۔ 

اپنی پارٹی کے لیے خُوب کنوینسنگ کرتی پِھررہی تھی۔ کیمسٹری کا شعبہ اولڈ جامعہ میں تھا اور وہیں سے بی بی جان کی کزن کا بیٹاماسٹرزکررہا تھا۔ ایک دن جب وہ اولڈ کیمپس آئی، توسوچا کیا مضائقہ ہے کہ اُس سے مل لیا جائے۔ ذرا دیکھوں تو بی بی جان کے قصیدوں میں کتنی جان ہے۔ اور وہ اُسے سیڑھیوں ہی پر مل گیا۔ اُس نےخُود اُسی سےپوچھا۔ ’’مجھے عُمر سلمان سےملنا ہے، جو فائنل ائیر کے اسٹوڈنٹ ہیں۔ بتاسکتے ہیں، کہاں ہوں گے؟‘‘اور سفید برّاق پینٹ، قمیص میں ملبوس لڑکے نے شائستگی سےکہا۔’’جی فرمائیے، مَیں ہی عُمر سلمان ہوں۔‘‘ وہ اس اچانک جواب پر سٹپٹا سی گئی۔ ایک پُرکشش اور ڈیشنگ لڑکا اُس کے سامنےکھڑا تھا، جسے اُس کی ماں اپنا داماد بنانا چاہتی تھی۔ جواباً اُس نے جلدی جلدی آنے کی غرض بتائی۔ ہاتھ میں پکڑا پینل تھمایا۔ سپورٹ کرنے، ووٹ ڈالنے کوکہا۔ لیکن عُمر اُس کے نہ نہ کرنے پر بھی اُسے کیفے ٹیریا لے گیا۔ جہاں انہوں نے ٹھنڈے مشروب کے ساتھ گرم گرم سموسے کھائے اور جب وہ واپس آرہی تھی تو اُس نے اپنے آپ سے کہا تھا۔ ’’اس دفعہ تو بی بی جان کی باتوں میں سو فی صد سچائی ہے۔‘‘

دونوں طرف کے بڑوں کا ایک دوسرے کے گھرآنا جانا تھا۔ صرف وہ دونوں ہی تھے، جو کبھی ایک دوسرے کے ہاں نہ گئے تھے۔ اور پھرجب وہ فائنل ائیر سے فارغ ہو کر گھر بیٹھی تو پتا چلا کہ اُس کی عُمر سے منگنی کی بات ہورہی ہے۔ اُس کی رضامندی لی گئی اور وہ دل سے بہت خُوش بھی تھی، مگر…اِس خوشی کے گلے میں جیسے ایک پھانس سی چُبھ گئی تھی۔ اُسے لگا، جیسے عُمر کی ماں اِس رشتے سے زیادہ خُوش نہیں۔

انھوں نے ایک بار نہیں، کئی مرتبہ دُہرایا کہ ’’پڑھی لکھی لڑکیاں بہت تیز ہوتی ہیں۔ کردار و اخلاق کی بھی کچھ خاص اچھی نہیں ہوتیں۔ بیٹوں کوماؤں سے چھین لیتی ہیں۔ اورجو کہیں ساس، سُسرکی خدمت کرنی پڑ جائےتواُنہیں جیتے جی جہنم رسید کردیتی ہیں۔‘‘ وہ سب سُنتی۔ دُکھی ہوتی اور دل میں عہد کرتی کہ وہ اُن کی بہت خدمت کرے گی۔ اُن کے سب خدشات ختم کرکے رہے گی۔ مگر وہ وقت ہی نہ آیا۔ چھے ماہ بعد ہی اچانک اُن کی طرف سے منگنی توڑدی گئی۔ اوریقیناًوجہ اُس کی ساس کی فرسودہ سوچ ہی ہوگی۔

اُس کے سارے وجود میں جیسے بھونچال آگیا تھا۔ ’’پڑھی لکھی لڑکیاں کیا مَن کی کالی ہوتی ہیں۔ اُن میں انسانیت نہیں ہوتی؟‘‘ اُس نےبار بار یہ سوال اپنے آپ سے کیا تھا۔ پھر مہینوں بعد اُسے اپنےاندر کی اس شدید ٹوٹ پھوٹ کا احساس ہُوا تھا، بالکل اُس شخص کی طرح، جس کی بےحد قیمتی گاڑی کا کسی حادثے میں انجر پنجر الگ ہوجائے، مگر اُس کی مرمّت کے بغیر کوئی چارہ بھی نہ ہو۔ وہ بھی اپنی طرف متوجّہ ہوئی۔ ایک گہری سہیلی کا بھائی برٹش قونصلیٹ میں ملازم تھا۔ اُس کی کوششوں سے اُسے سمندر پار جانے کا وظیفہ مل گیا۔ اور وہ ایک نئی، اجنبی سرزمین میں گم ہوگئی۔

رضا سے اُس کی ملاقات برمنگھم میں ہوئی۔ وہ بارلےاسٹریٹ میں اپنی ایک واقف خاتون کے ہاں پندرہ دن کی چھٹیاں گزارنے گئی تھی۔ رضا خاتونِ خانہ کا رشتےدار تھا اور تنزانیہ میں پاکستان کی ایک بڑی کیمیکل کمپنی کا پراجیکٹ کام یابی سےچلا کر تین سال بعد وطن لوٹ رہا تھا۔ پاکستان واپس جانے سے قبل گھومنے پِھرنے آیا تھا کہ اُس نے پی ایچ ڈی بھی لندن سےکی تھی۔ رات کےکھانے پر دونوں کا تعارف ہُوا۔ 

خاتونِ خانہ مسز محمود جب کھانے کے لیے بیٹھیں، تو بیٹے سے کہا۔’’شہریار! مجھے نجمی نظر نہیں آئی، کدھر ہے؟‘‘ اور شہریار ہنستے ہوئے بولا۔ ’’دادی امّاں کو گھمانے باہر لے گئی ہیں۔‘‘ تب مسزمحمود نے رضا سے کہا۔ ’’بڑی عجیب لڑکی ہے، یہاں لیڈز یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کررہی ہے، جب میرے پاس آتی ہے، میری ساس کے سیکڑوں کام کرجاتی ہے۔ وہ بھی بڑی بےچینی سے اِس کا انتظار کرتی ہیں۔‘‘ اور عین اُسی وقت وہ مسز محمود کی ساس کے ساتھ اندر آئی۔ رضا نے اُسے بغور دیکھا تھا۔ 

اتفاق سے وہ اُس کےساتھ والی کرسی پر بیٹھی۔ اُس کے چھوٹے چھوٹے گندمی ہاتھ جب سالن کا ڈونگا اُٹھانے کےلیےبڑھے، تورضا نے آہستگی سے کہا۔ ڈاکٹریٹ کا پُرمغز مقالہ یہ ننّھے منّے سے ہاتھ کیسے لکھتے ہیں؟‘‘’’یہ کب لکھتے ہیں، وہ تو ایک چھوٹا سا دماغ لکھواتا ہے۔‘‘ وہ ہنس پڑی تھی۔ وہ جب سے انگلینڈ آئی تھی، اِس نئی دنیا کو بہت شوق، دل چسپی سے دیکھ رہی تھی اور گزشتہ تلخ حادثے کو یک سر بُھلا دیا تھا۔ 

اُس کا چہرہ تروتازہ تھا۔ آواز میں مٹھاس اوراطوار میں شائستگی تھی۔ چند دِنوں کے ساتھ نےرضا کوبتا دیا کہ یہ لڑکی اُس کےلیے اچھی ساتھی ثابت ہوسکتی ہے اور پھر ایک دن اُس نے اپنی خواہش کا اظہار کردیا۔ وہ شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے رضا کو سُن رہی تھی، جو اُسے بتا رہا تھا کہ وہ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔ باپ نے کوئی جائداد نہیں چھوڑی تھی، جس کے بل پر وہ اُنہیں جلدی جلدی بیاہ دیتا۔ اُس نے زندگی میں سخت محنت کی، تب ہی بہنوں کے فرض سےسبک دوش ہو پایا۔ اب اُس کی بوڑھی ماں ایک دائمی مریضہ ہیں۔ 

ڈھیروں پیسا خرچ کرنے کے باوجود وہ متعدد امراض کی شکار ہیں اور وہ شادی کے لیےایک سُلجھی ہوئی، نرم دل لڑکی کی تلاش میں ہے،جواُس کی بیمارماں کو بوجھ نہ سمجھے۔ اُس نے رضا کو بغور دیکھا۔ اس کےنقش اچھے، رنگ سانولا تھا۔ جسم بےحد اسمارٹ اورکسرتی۔ بہت سے رنگ اُس کے چہرے پر پھیلے اورمٹ گئے۔ کچھ دیر بعد وہ اُٹھی۔ اپنا نرم ہاتھ اُس کے شانوں پر رکھا اور جذبات سے عاری لہجےمیں بولی۔ ’’تمہاری امّاں بیمار رہتی ہیں۔ اُنہیں ایک اچھی بہو کی ضرورت ہے اور مَیں یہ ذمّے داری اٹھانے کو تیار ہوں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ تیزی سے چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی باہرنکل گئی۔

وطن لوٹ کر اُس نے رضا سے شادی کرلی۔ شادی کےبعد رضا کی دو بہنوں نے کہا بھی کہ ’’ہم امّاں کو سنبھال لیں گے، تم لوگ گھوم پِھر آئو۔‘‘ مگر اُس نے منع کردیا۔ ’’مَیں بہتیرا گھومی پِھری ہوں۔ اب اِنہیں میری ضرورت ہے۔‘‘رضا ایک اچھا شوہر ہی نہیں، اچھا انسان بھی تھا۔ سوسائٹی میں اُس کا اپنا ایک مقام تھا۔ آٹھ سالوں میں اُن کے چار بچّے ہوئے۔ تین لڑکے اورایک لڑکی۔ بچّوں کو زیادہ تر نوکر سنبھالتے، مگر ساس کی ساری دیکھ بھال وہ خُود کرتی۔ کبھی کبھی امّاں جی اُسے پیار سے دیکھ کر کہتیں۔ ’’رضا! یہ ہیرا کہاں سےڈھونڈ لائے؟‘‘اورایسے میں اُس کےدل میں صرف ایک خواہش اُبھرتی۔ ’’اے کاش! وہ لوگ کبھی اُسے ملیں اور یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔‘‘

اور…آج جب وہ گاڑی میں بیٹھی اپنے میکے جارہی تھی، اُس نے اپنے آپ سے کہا تھا۔’’شاید اس تشنہ آرزو کی تکمیل کا وقت آگیا ہے۔‘‘اس کی ماں اور بھاوج نے اُس کی ساس کو اُتارا۔ دو بجے وہ رضا کے آفس گئی۔ عُمرنے باس کی بیوی کا استقبال کیا اور جب وہ شوہر سے فون پر بات کر رہی تھی، اُس نے ہنستے ہوئے بتایا۔ ’’تمہارا بہترین سب آرڈینیٹ تو میرا رشتےدار نکلا۔‘‘ جواباً رضانےبھی ہنستے ہوئے کہا۔ ’’تب ہی اتنا اچھا ہے، اب سمجھا۔ فون دو اُسے۔‘‘ اُس نےمسکراتے ہوئےریسیوراُس کےہاتھ میں پکڑا دیا۔ پتانہیں رضا اُس سے کیا کہہ رہا تھا، مگروہ خجل سا چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ لیے جواب دےرہا تھا۔ پھر، جب وہ عُمر کی منگوائی ہوئی چائے پی رہی تھی، اُس نےاُس سے بیوی بچّوں کے بارے میں پوچھا۔ یوں جیسے ماضی کی کوئی بات اُسے یاد ہی نہ ہو۔

رضا کی ماں کا آپریشن ہُوا۔ باس کی ماں اور بیوی اکیلی تھیں۔ سب آفس کا پورا عملہ مستعد تھا۔ عُمر بھی دن میں دو تین چکر لگاتا۔ اور پھر… ایک دن عُمر کے والدین آئے۔ وہ ساس کو کِھلاپلا کر نیپکن اُتار رہی تھی، جب وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے۔ وہ تو کئی روز سے اُن کی منتظر تھی۔ اُنہیں دیکھ کرایک عجیب سا تبسّم ہونٹوں پر بکھرگیا۔ خُوب تپاک سے ملی۔ کرسیوں پر بٹھایا اور ساس کے قریب ہو کر بولی۔ ’’امّاں جی! میرے رشتےدار آپ کی مزاج پرُسی کے لیے آئے ہیں۔‘‘ ’’عُمر کے والدین ہیں۔‘‘رضا کی ماں نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ آنکھوں پرپٹّی بندھی تھی۔ 

عُمر کی ماں نے اُن کا بڑھاہوا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا تو وہ گلوگیر آواز میں بولیں۔ ’’اپنی بہو کے رشتے داروں پر میرا قربان ہونے کوجی چاہتا ہے، جنہوں نے یہ ہیرا میری جھولی میں ڈال دیا۔ اِس نے میری جتنی خدمت کی ہے، اورجتنے میرے ناز اُٹھائے ہیں۔ دنیا میں کوئی سگی بیٹی بھی اپنی بہت چہیتی ماں کے نہیں اُٹھاسکتی۔‘‘’’ارےامّاں جی! آپ تو میرے قصیدے پڑھنے بیٹھ گئیں‘‘ وہ اِک ادائے بےنیازی سے کِھلکھلا کے بولی تھی۔ ساس نے اپنے ہاتھ اُس کی طرف بڑھائے۔ ’’میری بچّی! بےشک تو ہیرا ہے۔ اللہ تجھےبہت بھاگ لگائے۔‘‘

اُس کی ساس اُسے’’ہیرا‘‘ کہہ رہی تھیں اور اُن لوگوں کےسامنے، جنہوں نےاُسے پتّھر سمجھ کر ٹھکرا دیا تھا۔

ناقابلِ اشاعت کلام اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘

غزل(شگفتہ بانو،لالہ زار،واہ کینٹ) ٭نظم(صابر علی، ٹنڈومحمد خان، میر پور خاص) ٭شہسوار(صبااحمد)٭ مَیں کس چیز کی مبارک باد دوں (حفصہ جنید، بسم اللہ ٹیرس، گلزار ہجری ،کراچی)٭اس نے کہا تم پتّھر ہو (ہانیہ ارمیا، لاہور)

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کےتخلیق کار

گھر کی چاردیواری ( افروز عنایت )٭سیکیولرراج ( کرن نعمان)٭ پانی( ارسلان اللہ خان)٭ شہد کی مکھیاں(جمشید عالم صدیقی، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور) ٭غیرت(ذوالفقارعلی بخاری) ٭تھوڑی سی انسانیت (شائستہ عابد، لاہور)٭تحفہ(مریم شہزاد)